سی سی پی او لاہور کے سینٹرل سیلیکشن بورڈ سے اختلافات

اپ ڈیٹ 13 ستمبر 2020
عمر شیخ کی درخواست کے مطابق وہ سینیارٹی لسٹ میں 9 نمبر پر تھے جبکہ 19ویں نمبر پر موجود افسر کو ترقی دی گئی — فائل فوٹو: ڈان نیوز
عمر شیخ کی درخواست کے مطابق وہ سینیارٹی لسٹ میں 9 نمبر پر تھے جبکہ 19ویں نمبر پر موجود افسر کو ترقی دی گئی — فائل فوٹو: ڈان نیوز

لاہور- سیالکوٹ موٹر وے پر خاتون کے ساتھ ہونے والے ریپ کیس میں متاثرہ فرد کو ‘قصور وار’ ٹھہرانے والے کیپٹل سٹی پولیس افسر (سی سی پی او) محمد عمر شیخ ماضی میں 21 گریڈ میں ترقی سے انکار پر وفاقی حکومت کے خلاف قانونی چارہ جوئی بھی کرچکے ہیں۔

وفاقی حکومت کے خلاف عمر شیخ کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست کے جواب میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور سینٹرل سلیکشن بورڈ (سسی ایس بی) کی عدالت میں جمع کروائی گئی رپورٹ کے مطابق ‘عمر شیخ کی واشنگٹن میں 4 سالہ پوسٹنگ کے دوران، ان کی کارکردگی رپورٹ (پی ای آرز) میں 4 مرتبہ تنزلی کی گئی تھی’۔

مذکورہ رپورٹ میں کہا گیا کہ 'ان کے پورے کریئر کے دوران کارکردگی جائزہ سے متعکلق 7 رپورٹس میں ان کی تنزلی کی گئی'۔

یہ بھی پڑھیں: 'سی سی پی او کا بیان مناسب نہیں، انتظامی معاملات میں الجھے تو ہدف حاصل نہیں کرسکتے'

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اپنی درخواست میں عمر شیخ نے چونکا دینے والے انکشافات کیے تھے حتیٰ کہ سینٹرل سیلیکشن بورڈ (سی ایس بی) کے اراکین کی دیانت داری پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا تھا۔

سی ایس بی کے اراکین میں انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی پی) شعیب دستگیر بھی شامل تھے جن کا سی سی پی او لاہور کی بغیر مشاورت تعیناتی کے فوراً بعد تبادلہ کردیا گیا۔

سی سی پی او نے دعویٰ کیا تھا کہ سینٹرل سیلکشن بورڈ نے بااثر اداروں کے 'منظور نظر' لیکن جونیئر افسر کو گریڈ 21 میں ترقی دینے کے لیے ان پر ترجیح دی حالانکہ وہ افسر مرتضٰی بھٹو قتل کیس میں ایک ملزم اور سانحہ ساہیوال کا 'ذمہ دار تھا جس میں محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں نے ایک جعلی پولیس مقابلے میں ماں باپ اور بیٹی کو قتل کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: موٹروے ریپ کیس: مسلم لیگ (ن) کا سی سی پی او لاہور کی برطرفی کا مطالبہ

عمر شیخ کی درخواست کے مطابق وہ سینیارٹی لسٹ میں 9ویں نمبر پر تھے جبکہ 19ویں نمبر پر موجود افسر کو ترقی دی گئی اور انہیں ہٹانے کا پورا عمل اس افسر کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے کیا گیا۔

سی سی پی او نے الزام عائد کیا کہ جونیئر افسر نے 'بااثر اداروں' کے ایما پر کچھ ایسے اقدامات کیے کہ انہیں باری کے بغیر بلاجواز ترقی دی گئی۔

سانحہ ساہیوال کے وقت جو افسر سی ٹی ڈی کے سربراہی کررہے تھے انہیں سروس سے معطل کرنے کے بعد مارچ 2019 میں ہی عہدے پر بحال کردیا گیا تھا۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ 'مذکورہ افسر پاکستان پیپلز پارٹی (شہید بھٹو) کے رہنما میر مرتضیٰ بھٹو کے موت سے متعلق کیس میں بھی ملزم نامزد تھے اور 2009 میں عدالت سے بری ہوئے تھے'۔

یہ بھی پڑھیں:سی سی پی او لاہور سے اختلافات: آئی جی پنجاب تبدیل، انعام غنی کو ذمہ داری سونپ دی گئی

انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ سی ایس بی اراکین ان کے لیے بغض رکھتے ہیں اور ان کی ترقی کی مخالفت اس لیے کی کیوں کہ درخواست گزار نے ان کے 'بہنوئی کو تیل اسملنگ اسکینڈل میں' مدد نہیں کی۔

خیال رہے کہ سینٹرل سیلکشن بورڈ نے عمر شیخ کو 'سی' کیٹیگری کا درجہ دیا ہوا ہے۔

مذکورہ درخواست پر پٹیشنر، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور دیگر کا مؤقف سننے کے بعد جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس لبنیٰ سلیم پرویز پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے گزشتہ ماہ اس پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

خیال رہے کہ سابق آئی جی پنجاب شعیب دستگیر نے ان کی مشاورت کے بغیر عمر بن شیخ کا لاہور کے سٹی کیپیٹل سٹی پولیس افسر (سی سی پی او) تعینات کرنے پر کام کرنے سے انکار اور وزیر اعلی پنجاب سے ان کے کسی 'مناسب جگہ' پر تبادلہ کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔

تاہم پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی صوبائی حکومت نے سی سی پی او کو ہٹانے کے بجائے شعیب دستگیر کی جگہ انعام غنی کو اس عہدے کی ذمہ داریاں سونپ دی تھیں۔

بعدازاں پنجاب پولیس کے 50 سے زائد افسران نے سبکدوش ہونے والے آئی جی پنجاب شعیب دستگیر کے خلاف 'توہین آمیز ریمارکس' دینے پر سی سی پی او عمر شیخ کے خلاف ایک مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے تادیبی کارروائی اور فوری تبادلے کا مطالبہ کیا تھا۔

اس کے علاوہ موٹروے پر گینگ ریپ کا شکار خاتون کے حوالے سے متنازع بیان دینے پر بھی سی سی پی او لاہور عمر شیخ کو شدید تنقید کا سامنا ہے جس پر حکومت کی جانب سے انہیں اظہار وجوہ کا نوٹس بھی جاری کیا جاچکا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں