سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر 'ریاست، پاکستانی اداروں اور پاک فوج کے خلاف منفی پروپیگنڈا' پر مبنی مواد شیئر کرنے پر صحافی اسد طور کے خلاف ایف آئی آر درج کر دی گئی.

اسلام آباد میں مقیم صحافی اسد طور نے ایف آئی آر کی ایک کاپی اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر شیئر کی۔

راولپنڈی کے رہائشی حافظ احتشام احمد کی ایک شکایت پر اسد طور کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی جنہوں نے دعوی کیا تھا کہ 'گزشتہ چند دنوں سے (اسد طور) پاک فوج سمیت اعلیٰ سطح کے سرکاری اداروں کے خلاف توہین آمیز زبان استعمال کررہے ہیں جو قانون کے مطابق سنگین جرم ہے۔

اسد طور کے خلاف درج آیف آئی آر میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 499 (ہتک عزت)، 500 (بدنامی کی سزا) اور 505 (بدعنوانی پر مبنی بیانات) اور پاکستان الیکٹرانک کرائم ایکٹ (پیکا) 2016 کی دفعہ 37 (غیر قانونی آن لائن مواد) شامل کی گئیں ہیں۔

اسد طور نے ایف آئی آر کے اندراج کو 'مایوس کن پیش رفت' قرار دیا۔

مزید پڑھیں:پولیس نے ایکسپریس ٹریبیون کے صحافی بلال فاروقی کو رہا کردیا

انہوں نے کہا کہ 'صحافی ہونے کے ناطے یہ میرے لیے افسوس ناک پیش رفت ہے کیونکہ میں کبھی خود خبر بننا نہیں چاہتا ہوں'۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے اسد طور کے خلاف درج مقدمے کی مذمت کی۔

ایچ آر سی پی نے بیان میں کہا کہ 'صحافیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے اس طرح کے اقدامت سے اس بات کی تصدیق ہوگئی ہے کہ حکومت آزاد اظہار رائے دبا رہی ہے'۔

بیان میں کہا گیا کہ 'ایچ آر سی پی مطالبہ کرتا ہے کہ شہریوں کے حقوق کا احترام کیا جائے، حکومت اور ریاست دونوں درست اقدامات کریں'۔

واضح رہے کہ اسد طور کے خلاف یہ مقدمہ پچھلے چند دنوں میں صحافیوں کے خلاف درج ہونے والی تیسری ایسی شکایت ہے۔

اس سے قبل اسی طرح کی ایف آئی آر جہلم میں صحافی اور پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے سابق چیئرمین ابصار عالم کے خلاف بھی درج کی گئی تھی۔

ایف آئی آر چوہدری نوید احمد کی شکایت پر درج کی گئی تھی جس میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ ابصار عالم نے وزیر اعظم عمران خان اور پاک فوج کے خلاف ٹوئٹر اور دیگر سوشل میڈیا پر 'انتہائی نازیبا' زبان استعمال کی ہے جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ 'غداری' کے مترادف ہے۔

ایف آئی آر میں لکھا تھا کہ '(فوج کے جوان) شہریوں کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں اور جب تباہی پھیلتی ہے تو سب سے آگے ہوتے ہیں اور پوری دنیا پاک فوج کی خدمات کو تسلیم کرتی ہے'۔

یہ بھی پڑھیں:سال 2019 بھی پاکستان میں آزادی صحافت اور صحافیوں کیلئے پریشان کن رہا!

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ 'یہ پہلا موقع ہے جب ملک میں ایک ایماندار وزیر اعظم ہے جو دن رات کام کرکے (ملک کی بہتری کے لیے) اقدامات کررہا ہے، ابصار عالم نے وزیر اعظم کے خلاف توہین آمیز بیانات دیے ہیں اور انتہائی ناقابل قبول زبان استعمال کی ہے'۔

شکایت کنندہ نے الزام لگایا کہ ابصار عالم پاکستان میں رہنے کے باوجود 'پاکستان کے دشمنوں کے مقاصد کو آگے بڑھا رہے ہیں'۔

ابصار عالم کے خلاف درج ایف آئی آر میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 124 (صدر، گورنر وغیرہ پر حملہ)، 131 (بغاوت کو بڑھاوا دینا یا کسی فوجی، سپاہی کو اس کی ڈیوٹی سے بے دخل کرنے کی کوشش)، 499 (ہتک عزت)، 505 (عوامی فسادات پر مبنی بیانات) اور پیکا کی دفعہ 20 (کسی شخص کے وقار کے خلاف جرم کرنا) شامل ہیں۔

افواج پاکستان کو بدنام کرنے پر صحافی گرفتار

ایک روز قبل ہی سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی کے چیئرمین مصطفی نواز کھوکھر نے کہا تھا کہ پینل نے ابصار عالم کے خلاف ایف آئی آر کا نوٹس لیا ہے۔

انہوں نے ضلعی پولیس افسر جہلم کو وضاحت کے لیے طلب کیا ہے۔

انہوں نے سوال اٹھایا تھا کہ 'پارلیمنٹ اپنی آواز اٹھاتی رہے گی لیکن کیا اعلی عدلیہ بھی نوٹس لے گی؟'

مزید پڑھیں:صحافی مطیع اللہ جان گھر واپس پہنچ گئے

پچھلے ہفتے انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون سے وابستہ سینئر صحافی بلال فاروقی کو کراچی پولیس نے سوشل میڈیا پر 'قابل اعتراض' مواد شائع کرنے اور فوج کو بدنام کرنے کے الزام میں حراست میں لیا تھا۔

ایف آئی آر کے مندرجات کے مطابق لانڈھی میں مجید کالونی کا رہائشی شکایت کنندہ جاوید خان نے کہا تھا کہ انہوں نے 9 ستمبر کو ڈی ایچ اے فیز 2 ایکسٹینشن میں ایک ریسٹورنٹ کا دورہ کیا جہاں انہوں نے فیس بک اور ٹوئٹر اکاؤنٹس چیک کیا تو بلال فاروقی نے 'انتہائی قابل اعتراض مواد' دو پلیٹ فارمز پر شیئر کیا تھا۔

شکایت کنندہ نے دعوی کیا تھا کہ 'انتہائی اشتعال انگیز پوسٹیں' فاروقی نے پاک فوج کے خلاف شیئر کی ہیں اور ان میں مذہبی منافرت سے متعلق مواد بھی موجود ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں