سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کا فیصلہ سنانے کیلئے سماعت 22 ستمبر تک ملتوی

اپ ڈیٹ 17 ستمبر 2020
بلدیہ فیکٹری کا واقعہ سال 2012 میں پیش آیا تھا—فائل فوٹو: اے ایف پی
بلدیہ فیکٹری کا واقعہ سال 2012 میں پیش آیا تھا—فائل فوٹو: اے ایف پی

کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے سانحہ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کیس میں مزید دلائل طلب کرتے ہوئے سماعت 22 ستمبر تک ملتوی کردی۔

خیال رہے کہ ملک کی صنعتی تاریخ کے سب سے بڑے صنعتی حادثے بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کیس کا فیصلہ 8 سال بعد آج سنائے جانے کا امکان تھا۔

آج متوقع فیصلے کے پیش نظر بڑی تعداد میں میڈیا، صحافی عدالت میں موجود تھے۔

سینٹرل جیل کے جوڈیشل کمپلیکس میں مقدمے کی سماعت کرنے والے انسداد دہشت گردی کی عدالت نمبر 7 کے جج کی جانب سے مقدمے کو منطقی انجام تک پہنچانے اور فیصلہ سنائے جانے کا امکان اس لیے بھی تھا کیونکہ شواہد کی ریکارڈنگ، پروسیکیوشن کے گواہوں کے بیانات، ملزمان کے بیانات، اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر کے حتمی دلائل اور ملزمان کے وکیل اپنے دلائل تقریباً مکمل کر چکے ہیں۔

مزید پڑھیں: حماد صدیقی نے 20 کروڑ روپے بھتہ نہ ملنے پر بلدیہ فیکٹری کو آگ لگوائی، جے آئی ٹی رپورٹ

تاہم عدالت کی جانب سے مذکورہ کیس کی سماعت کو 22 ستمبر تک کے لیے ملتوی کردیا گیا کیونکہ اسٹیٹ پراسیکیوٹر (سرکاری وکیل) نے متاثرین سے متعلق اضافی دستاویزات پیش کیں جنہیں حکومت اور غیرملکی خریدار کمپنی کی جانب سے معاوضہ ملا ہے۔

بعد ازاں عدالت نے مذکورہ معاملے پر مزید دلائل کے لیے کیس کی سماعت 22 ستمبر تک ملتوی کردی جہاں آئندہ سماعت پر فیصلہ سنائے جانے کا امکان ہے۔

مذکورہ کیس میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے اس وقت کے صوبائی وزیر صنعت و تجارت رؤف صدیقی سمیت 10 ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی تھی جس میں ایم کیو ایم کے بلدیہ ٹاؤن کے سیکٹر انچارج عبدالرحمٰن عرف بھولا، زبیر عرف چریا، حیدرآباد کی کاروباری شخصیت عبدالستار خان، عمر حسن قادری، اقبال ادیب خانم اور فیکٹری کے چار چوکیداروں شاہ رخ، فضل احمد، ارشد محمود اور علی محمد شامل ہیں۔

ان پر الزام ہے کہ انہوں نے اس وقت ایم کیو ایم کراچی کی تنظیمی کمیٹی کے سربراہ حماد صدیقی کی ہدایت پر فیکٹری کے مالک کی جانب سے 25 کروڑ روپے کا بھتہ نہ دینے پر فیکٹری کو آگ لگا دی تھی، حماد صدیقی اور کاروباری شخصیت علی حسن قادری کو اشتہاری قرار دیا جا چکا ہے کیونکہ یہ دونوں بیرون ملک فرار ہو گئے تھے۔

سانحہ بلدیہ فیکٹری، کب کیا ہوا؟

واضح رہے کہ 11 ستمبر 2012 یعنی کے 8 سال قبل کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں واقع ایک فیکٹری میں ہولناک آتشزدگی کے نتیجے میں وہاں کام کرنے والے مرد و خواتین سمیت 260 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔

اس المناک واقعے کے بعد اس پر کئی سوالات اٹھے تھے کہ آگ لگی یا لگائی گئی، جس کے بعد واقعے کی تحقیقات کے لیے رینجرز اور پولیس سمیت دیگر اداروں کے افسران پر مشتمل 9 رکنی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی (جے آئی ٹی) تشکیل دی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ بلدیہ فیکٹری: 7 سال بعد زمینی حقائق اب بھی وہی ہیں

مزید یہ کہ کیس کی ابتدائی چارج شیٹ میں مبینہ غفلت پر فیکٹری مالک عبدالعزیز بھیلا، ان کے دو بیٹوں ارشد بھیلا اور شاہد بھیلا ، ایک جنرل منیجر اور چار چوکیداروں کو نامزد کیا گیا تھا۔

البتہ فروری 2015 میں کیس نے اس وقت نیا موڑ لیا جب پاکستان رینجرز نے سندھ ہائی کورٹ میں جے آئی ٹی رپورٹ جمع کرائی جس میں یہ انکشاف کیا گیا کہ 25 کروڑ روپے بھتے کی عدم ادائیگی پر فیکٹری میں آگ لگائی اور اسی جے آئی ٹی کی بنیاد پر دوبارہ تحقیقات کا حکم دیا گیا۔

مارچ 2016 میں پولیس نے ٹرائل کورٹ کو بتایا کہ فیکٹری میں منظم منصوبہ بندی کے تحت آگ لگائی گئی اور یہ دہشت گردی کا واقعہ ہے۔

پولیس نے اپنی جے آئی ٹی میں انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت مقدمہ درج کرنے کی سفارش کی اور حماد صدیقی، مبینہ فرنٹ مین عبدالرحمٰن عرف بھولا، کاروباری بھائیوں علی حسن قادری اور عمر حسن قادری، ڈاکٹر عبدالستار، اقبال ادیب خانم، زبیر عرف چریا اور دیگر کو ملزم ٹھہرایا گیا تھا۔

البتہ طویل تفتیش کے بعد پولیس نے اگست 2016 میں ضمنی تفتیشی رپورٹ جمع کرائی تھی جس میں انہوں نے حماد صدیقی، عبدالرحمٰن دیگر 3 نامعلوم ساتھیوں کے خلاف چارج شیٹ فائل کی تھی اور دیگر 13 افراد کو ٹرائل میں نامزد نہیں کیا تھا۔

لیکن عدالت نے جن افراد کے نام نئی چارج شیٹ میں شامل نہیں کیے تھے ان کو بھی ملزم قرار دیتے ہوئے کہا کہ مالکان نے فیکٹری کے دروازے بند کرنے کا حکم دیا تھا جبکہ دیگر افراد نے بھی جرم کا ارتکاب کیا۔

دسمبر 2016 میں عبدالرحمٰن عرف بھولا کو انٹرپول کے ذریعے بنکاک سے گرفتار کیا گیا اور انہوں نے جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے اعتراف جرم کرتے ہوئے بیان ریکارڈ کرایا، اپریل 2017 میں پولیس نے بھولا کے خلاف ضمنی چارج شیٹ فائل کی تھی۔

مذکورہ ضمنی چارج شیٹ میں عبدالرحمٰن نے اعترافی بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے زبیر عرف چریا اور دیگر کو حماد صدیقی کی ہدایت پر فیکٹری میں آگ لگانے کی ہدایت کی تھی کیونکہ فیکٹری مالکان مانگی گئی بھتے کی رقم یا فیکٹری میں شراکت داری سے انکار کر چکے تھے۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ واقعے کے بعد اس وقت کے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے صوبائی وزیر رؤف صدیقی نے مبینہ طور پر فیکٹری کے مالکان کے خلاف مقدمہ درج کرایا تھا اور بعد میں انہیں پتا چلا تھا کہ رؤف صدیقی اور حماد صدیقی کو مقدمہ ختم کرنے کے لیے فیکٹری مالکان سے 4 سے 5 کروڑ روپے کی رقم ملی تھی لیکن پولیس نے اپنی ضمنی رپورٹ میں رکن صوبائی اسمبلی کو معصوم قرار دیا تھا۔

اس کے بعد پبلک پراسیکیوٹر نے مقدمے میں رؤف صدیقی کو نامزد نہ کرنے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ رکن صوبائی اسمبلی کے خلاف اتنے ثبوت موجود ہیں کہ انہیں چارج شیٹ میں نامزد کیا جا سکتا ہے۔

جنوری 2018 میں عدالت نے درخواست منظور کرتے ہوئے رؤف صدیقی کو بھی ملزم قرار دیا تھا۔

مزید پڑھیں: سانحہ بلدیہ فیکٹری: ایم کیو ایم کو کروڑوں روپے بھتہ دینے کا کہا گیا، مالک

علاوہ ازیں اپریل 2019 میں کیس کی سماعت کے دوران ایک اہم ترین گواہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش ہوا اور واقعے میں ملوث ایک ملزم زبیر عرف چریا کو شناخت کیا گیا تھا۔

اس کیس میں پروسیکیوشن فرانزک، بیلسٹک اور کیمیکل تجزیاتی رپورٹس اور ملزمان کے خلاف 400 افراد کی گواہی سمیت مقدمے کو مکمل کر چکی ہے۔

پراسیکیوٹر ساجد محمود شیخ کے مطابق فیکٹری میں آگ لگنے سے 264 افراد جل کر راکھ ہو گئے تھے اور ان میں سے 17 افراد کی شناخت نہیں ہو سکی تھی۔

تاہم اس کے برعکس نامزد ملزمان نے تمام تر الزامات کو مسترد کردیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں