عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے 25 اگست کو اعلان کیا تھا کہ افریقہ پولیو وائرس سے پاک ہوگیا ہے لیکن یہ خبر لوگوں کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہی کیوں کہ دنیا کی توجہ نوول کورونا وائرس کی جانب تھی، حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا کے غریب ممالک، عالمی کوششوں کی مدد سے، پولیو وائرس کو ختم کرنے میں کامیاب ہوئے۔

تاہم دنیا کے صرف دو ممالک، پاکستان اور افغانستان، ایسے ہیں جن میں اب بھی معذور کردینے والا پولیو وائرس موجود ہے۔

مزید پڑھیں: پشاور میں 4 سال بعد پولیو کا پہلا کیس رپورٹ

ان دونوں ہمسایہ ممالک میں پولیو وائرس کے مکمل خاتمے میں ناکامی میں بہت سے عوامل کار فرما ہیں جس میں اس کی ویکیسن سے متعلق پائے جانے والے جذبات بھی شامل ہیں جن کے مطابق یہ مذہب یا اسلام کے خلاف ہے۔

رواں سال 17 ستمبر تک پاکستان میں پولیو کے 73 کیسز رپورٹ ہوچکے تھے جو 2017 کے مقابلے میں بہت زیادہ تعداد ہے جب ملک میں سب سے کم 8 پولیو کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔

خطرناک معاملہ

حالیہ کچھ برسوں سے پولیو ویکسین کا معاملہ ملک میں سب سے نمایاں مسئلہ رہا ہے، حکومت نے ٹیکہ لگانے کی مہمات کے حوالے سے کچھ برس پہلے ہی یہ محسوس کرلیا تھا کہ صرف صحت کے رضاکاروں کو گھر گھر بھیجنا ہی اس کے خلاف واحد حل نہیں ہے۔

اس لیے مزید کچھ کرنے کی ضرورت ہے اور اس سے عوامی رائے میں تبدیلی لا کر ہی نمٹا جا سکتا ہے، خطرہ یہ تھا کہ اگر بروقت معلومات عوام تک نہیں پہنچائی جائیں تو پاکستان کو پولیو سے پاک کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جیسا کہ واٹس اپ گروپس پر پولیو رضا کاروں اور ان کے تحفظ پر مامور سیکیورٹی اہلکاروں کے حوالے سے سازشی نظریات کے پھیلاؤ کی وجہ سے حملوں کے خطرات موجود تھے۔

حلال ہونے کی تصدیق

2015 میں حکومت نے ملک میں پولیو ویکسین کے حوالے سے پھیلی بڑی افواہ کہ یہ حلال نہیں ہے کو دور کیا، اس کے لیے پاکستان میں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے ویکسین کا ٹیسٹ کیا اور اسے حلال قرار دے دیا، اس اقدام کا ایک اور مقصد ان افواہوں کو روکنا بھی تھا جن میں کہا جا رہا تھا کہ ویکسین میں خاص قسم کے ہارمونز شامل ہیں جو بچوں میں بانجھ پن کی وجہ بن سکتے ہیں۔

لیکن یہ افواہیں اب 5 سال کے بعد بھی 2020 میں موجود ہیں جس کے لیے پاکستان علما کونسل (پی یو سی) نے ایک پریس کانفرنس میں بات کی۔

یہ بھی پڑھیں: جاپان کا پاکستان میں 4 ماہ بعد پولیو مہم کی بحالی کا خیرمقدم

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پی یو سی کے چیئرمین حافظ طاہر اشرفی نے ملک میں انسداد پولیو مہم اور اس کے حوالے سے افواہیں پھیلانے والوں پر تنقید کی۔

انہوں نے کہا کہ ‘پاکستان علما کونسل، دارالافتا پاکستان، وفاق المساجد، مدارس پاکستان اور علما اور مشائخ نہ صرف پولیو کو حلال قرار دے چکے ہیں بلکہ یہ تک بتایا جا چکا ہے کہ یہ لوگوں کے لیے فائدہ مند ہے اور اس حوالے سے ہدایات جاری ہوچکی ہیں کہ پولیو ویکسین میں کچھ بھی حرام یا نقصاندہ نہیں۔

ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے کراچی کے ایک عالم مولانا عمر صادق نے کہا کہ ویکیسن کے حلال ہونے میں کوئی ابہام موجود نہیں، انہوں نے 2015 میں ہونے والے ویکسین کے ٹیسٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ‘پاکستان میڈیکل بورڈ اس کی وضاحت کرچکا ہے’۔

واضح رہے کہ مولانا صادق سندھ میں پولیو کے حوالے سے قائم اسکالز کی ٹاسک فورس کے چیئرمین بھی ہیں۔

مزید پڑھیں: پولیو اور کورونا سے مقابلے کے دوران 1166 ہیلپ لائن غلط معلومات اور خطرات کو کیسے دور کررہی ہے؟

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ‘تمام مسالک کے علما نے اسے حلال قرار دیا ہے۔۔۔ متعدد فتوے جاری کیے جاچکے ہیں کہ وائرس سے بچوں اور دیگر کے تحفظ کے لیے ویکسینیشن لازمی ہے’۔

کراچی سے ہی تعلق رکھنے والے ایک اور عالم مولانا ڈاکٹر نصیر الدین سواتی ان افواہوں پر ہنس دیئے جن میں کہا جا رہا ہے کہ ویکسین بانجھ پن کا باعث ہوسکتی ہے، انہوں نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ ‘میں نہیں جانتا کہ یہ افواہیں لوگوں میں کہاں سے پھیلائی جارہی ہیں’۔

انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ ‘جب لوگ مجھے ایسی چیزیں بتاتے ہیں تو میں انہیں بتاتا ہوں کو میں ایسے بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں جنہیں یہ ویکسین دی گئی اور وہ اب 3 بچوں کے والد ہیں’۔

کیا ویکسین مسلمانوں کے خلاف سازش ہے سے متعلق زیر گردش افواہوں پر مولانا صادق نے انہیں مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ‘ویکسین کے خلاف جو بھی کیا جا رہا ہے وہ پروپیگنڈا ہے۔۔۔ اس بیماری کی ویکسین کی ضرورت پر میں کئی سالوں سے لوگوں کو اس حوالے سے تعلیم دینے کی کوشش کررہا ہوں'۔

علامہ سید رضا جعفر نقوی نے حال ہی میں ایک جاری ویڈیو پیغام میں کہا کہ ‘لوگ ہر طرح کی افواہیں پھیلا رہے ہیں، میں آپ لوگوں سے کہوں گا کہ آپ ان کی باتوں میں نہ آئیں، سچ تو یہ ہے کہ پولیو ایک خطرناک بیماری ہے جو آپ کے بچے کو معذور کرسکتی ہے۔۔۔ اپنے بچوں کو اس مرض سے بچاؤ کے لیے ویکسین فراہم کریں’۔

حقیقت میں گزشتہ سال اکتوبر میں اسلامی نظریاتی کونسل (سی آئی آئی) نے پولیو ویکسین کی حمایت میں سیکڑوں فتوے جاری کیے، جسے ویکسین سے متعلق ملک میں مذہبی حوالوں سے ہونے والی مخالفت کے لیے اُمید کی کرن کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔

مزید پڑھیں: انسدادِ پولیو، پاکستان میں ایک خطرناک مہم

سی آئی آئی کی جانب سے اپنی ہدایات میں تشویش کا اظہار کیا گیا کہ پاکستان کو پولیو کیسز کی وجہ سے سفری پابندیوں کا سامنا ہے اور ملک مستقبل میں دیگر قسم کی معاشی مشکلات کا سامنا بھی کرسکتا ہے اور پولیو کو کنٹرول نہ کیا گیا تو ان پابندیوں میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔

تقریباً ایک سال بعد بھی مولانا صادق نے ایسے ہی خدشات کا اظہار کیا، انہوں نے خبردار کیا کہ ‘یہ منتقل ہونے والی بیماری ہے’، اگر ہم نے اسے ابھی نہیں روکا تو بین الاقوامی برادری ہم پر سفری پابندیاں عائد کرسکتی ہے اور ہم عمرہ اور حج سے بھی محروم ہوسکتے ہیں’۔

مولانا سواتی کے مطابق تمام مسالک کے علما ویکسین کی حمایت کے لیے جمع ہوئے ہیں، انہوں نے اس اُمید کا اظہار بھی کیا کہ لوگ افواہوں پر کان نہ دھریں اور معاشرے اور اپنے وسیع تر مفاد میں اپنے بچوں کو پولیو ویکسینشن فراہم کریں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ‘ڈاکٹرز کو ان کا کام کرنے دیں، جب وہ کہیں کہ آپ کو ویکسین کی ضرورت ہے تو اس میں ابہام کی کوئی گنجائش نہیں، نہ ہی آپ اور نہ ہی آپ کے واٹس اپ گروپ والے مذکورہ بیماری اور ویکسین کو ڈاکٹرز سے بہتر جاسکتے ہیں'۔

تبصرے (0) بند ہیں