افغانستان: طالبان سے جھڑپوں میں سیکیورٹی فورسز کے 57 اہلکار ہلاک

22 ستمبر 2020
بغلان، تخار، ہلمند، کاپیسا، بلخ، میدان وردک اور قندوز صوبوں میں بھی جھڑپیں ہوئیں، حکام — فوٹو: رائٹرز
بغلان، تخار، ہلمند، کاپیسا، بلخ، میدان وردک اور قندوز صوبوں میں بھی جھڑپیں ہوئیں، حکام — فوٹو: رائٹرز

افغانستان کے مختلف حصوں میں طالبان کے جنگجوؤں کے ساتھ جھڑپوں میں افغان سیکیورٹی فورسز کے 57 اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی' رائٹرز' کے مطابق قطر میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ایک ہفتے قبل مذاکرات کے آغاز کے بعد یہ سب سے زیادہ پرتشدد دن تھا۔

وسطی صوبے اروزگان کے نائب گورنر سید محمد سعادت نے کہا کہ اتوار کو رات گئے صوبے میں طالبان جنگجوؤں کے سیکیورٹی چیک پوائنٹس پر حملے میں افغان سیکیورٹی فورسز کے 24 اہلکار ہلاک ہوئے۔

اسی طرح صوبائی حکام نے بتایا کہ بغلان، تخار، ہلمند، کاپیسا، بلخ، میدان وردک اور قندوز صوبوں میں بھی جھڑپیں ہوئیں اور وہاں بھی جانی نقصان ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: دوحہ: افغان حکومت اور طالبان میں امن مذاکرات کا آغاز

صوبہ بلخ کے گورنر کے ترجمان منیر احمد فرہان نے کہا کہ طالبان نے افغانستان کے جاسوسی ادارے کے 3 اراکین کو یرغمال بنایا۔

طالبان نے ان جھڑپوں میں اپنے جانی نقصان کی تصدیق نہیں کی تاہم پامیر ملٹری کور کے ترجمان کا کہنا تھا کہ قندوز، تخار اور بغلان میں ہونے والی جھڑپوں میں طالبان کے 54 جنگجو مارے گئے۔

میدان وردک کے حکومتی ترجمان محب اللہ شریف زئی نے کہا کہ صوبے میں جھڑپوں میں 26 جنگجو ہلاک ہوئے۔

افغان وزارت داخلہ کے ترجمان طارق آرائین کا کہنا تھا کہ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران طالبان کے 24 صوبوں میں حملوں میں 98 شہری ہلاک اور 230 زخمی ہوئے۔

ہفتہ کو شمال مشرقی صوبے قندوز میں طالبان کے اڈے پر فضائی حملے میں 12 شہری ہلاک ہوئے۔

مزید پڑھیں: شمالی افغانستان میں طالبان کا حملہ، 14 افغان سیکیورٹی اہلکار ہلاک

وزارت دفاع کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ ان فضائی حملوں میں طالبان کے 40 جنگجو ہلاک ہوئے، تاہم انہوں نے شہریوں کی ہلاکت کی تعداد کی تصدیق نہیں کی۔

واضح رہے کہ 12 ستمبر کو قطر کے دارالحکومت دوحا میں مذاکرات کے آغاز کے بعد طالبان اور افغان حکومت کی مذاکراتی ٹیمیں ملاقاتیں کر رہی ہیں، لیکن اب تک معاملات زیادہ آگے نہیں بڑھ سکے ہیں۔

مذاکراتی ٹیموں کے درمیان دوحا میں تقریباً روز ہونے والی ملاقاتوں میں اب تک امن عمل کے قواعد و ضوابط پر ہی بحث ہو رہی ہے اور بیشتر اہم معاملات پر کوئی بات نہیں ہوئی ہے۔

خیال رہے کہ 29 فروری کو امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدے میں بین الافغان مذاکرات طے پائے تھے، اس وقت اس معاہدے کو 40 سال سے جاری جنگ میں امن کا بہتری موقع قرار دیا گیا تھا۔

ابتدائی طور پر یہ توقع کی جارہی تھی کہ 29 فروری کو معاہدے کے چند ہفتوں میں مذاکرات کا آغاز ہوجائے گا تاہم شروع سے ہی اس ٹائم لائن میں تاخیر کے باعث خلل پڑنا شروع ہوگیا تھا۔

امریکا کے ساتھ ہوئے طالبان کے معاہدے میں سے قبل ہی یہ طے کیا گیا تھا کہ افغان حکومت 5 ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کرے گی جبکہ طالبان بدلے میں ایک ہزار حکومتی اور عسکری اہلکاروں کو اپنی حراست سے چھوڑیں گے تاہم اس میں مسائل کا سامنا رہا اور افغان حکومت اس سے گریز کرتی نظر آئی۔

یہ بھی پڑھیں: بین الافغان مذاکرات کے لیے باضابطہ ایجنڈا طے نہیں کیا گیا

مزید یہ کابل میں جاری سیاسی بحران نے مذاکرات کو مزید تاخیر کا شکار بنادیا کیونکہ وہاں افغان صدر اشرف غنی اور ان کے حریف عبداللہ عبداللہ نے متنازع صدارتی انتخابات میں ایک دوسرے پر فتح کا اعلان کردیا۔

بعد ازں اس بحران کو ختم کرنے کے لیے اختیارات کے تبادلے کے معاہدے کے حصے کے طور پر عبداللہ عبداللہ کو امن مذاکرات کی نگرانی کرنے والی اعلیٰ کونسل برائے قومی مفاہمت کا سربراہ نامزد کردیا گیا۔

تاہم اس کے بعد طالبان کی جانب سے تشدد کم کرنے سے انکار نے مذاکرات کے آغاز میں مزید رکاوٹ ڈال دی۔

بعد ازاں دونوں فریقین کی جانب سے ایک دوسرے کے قیدیوں کی رہائی بھی دیکھنے میں آئی تھی اور طالبان کے 6 قیدیوں کی آخری رکاوٹ دور ہونے کے بعد قطر کی وزارت خارجہ نے مذاکرات کے آغاز کا اعلان کیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں