60 سال قبل 9 ستمبر 1960ء کو پاکستان نے روم میں ہونے والے ہاکی کے فائنل میں بھارت کو شکست دے کر کسی بھی کھیل میں پہلا طلائی تمغہ (گولڈ میڈل) اپنے نام کیا تھا، یہ وہ لمحہ تھا جس کے لیے پوری قوم 1947ء میں پاکستان کے قیام کے بعد سے منتظر تھی۔

کہا جاتا ہے کہ کسی بھی ملک کی قومی اور علاقائی شناخت اس کے کھیلوں کی کامیابیوں سے منسلک ہوتی ہے۔ 1951ء میں ہاشم خان نے برٹش اوپن اسکواش کا ٹائٹل جیتا اور یوں پاکستان کو عالمی چیمپئن بننے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔

کرکٹ کی بات کریں تو پاکستان نے 1954ء میں اپنے پہلے ہی دورہ انگلینڈ میں اوول ٹیسٹ جیت کر سب کو حیران کیا۔ یاد رہے کہ بھارت کو انگلینڈ میں اپنی پہلی جیت کے لیے تقریباً 40 سال انتظار کرنا پڑا تھا۔

لیکن یہ ہاکی کا کھیل تھا جو پاکستان اور بھارت دونوں کے شائقین کے درمیان توجہ کا مرکز تھا۔

اس کی کئی وجوہات تھیں۔ پاکستان کے قیام سے پہلے یونائیٹڈ برطانوی بھارتی ٹیم نے 3 بار لگاتار یعنی 1928ء، 1932ء اور 1936ء میں اولمپکس ہاکی طلائی تمغہ اپنے نام کیا لیکن پھر دوسری عالمی جنگ چھڑ گئی اور اگلے اولمپکس کا انعقاد 1948ء میں ہی ہوسکا۔

مزید پڑھیے: پاکستان ہاکی : عروج اور زوال

جس ٹیم نے لگاتار 3 بار طلائی تمغے جیتے اس میں مسلمان کھلاڑیوں کا اہم ترین کردار رہا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ نہ صرف پاکستانی عوام بلکہ کھیلوں کے شائقین نے بھی تقسیمِ ہند کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان 1948ء میں اولمپیاڈ کے فائنل کی توقع کی تھی۔ مگر سونے اور چاندی کی تو دُور کی بات پاکستانی ٹیم کانسی کا تمغہ بھی حاصل کرنے میں ناکام رہی، اور لندن اولمپکس میں چوتھے نمبر رہی۔ 4 سال بعد پاکستان نے 1952ء میں ایک بار پھر ہیلسنکی اولمپکس کا اختتام چوتھے نمبر پر کیا۔

یہ پاکستان کی لگاتار دوسری شکست تھی جس کی وجہ سے مایوسی زیادہ ہوئی اور مسلسل شکستوں نے تو جیسے سب کو جھنجھور کر ہی رکھ دیا۔ اس صورتحال میں ایک 5 ارکان پر مشتمل کمیٹی بنائی گئی جس کی سربراہی پنجاب یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ہاکی کے سابق امتیازی کھلاڑی اور سینئر سول سرونٹ میاں ریاض الدین نے کی۔ کمیٹی نے متعدد سفارشات پیش کیں بشمول

  • کوٹہ سسٹم پر مشتمل نمائندوں کے بجائے ایک نئی سلیکشن کمیٹی بنانی جائے جس میں صرف نامور سابقہ کھلاڑی شامل ہوں۔
  • کھلاڑیوں پر کوئی غیر مناسب دباؤ نہیں ہو بلکہ وہ اپنے فیصلے خود اپنے طور پر کریں۔
  • کپتان کی طاقت اور اختیار میں اضافہ ہونا تھا۔
  • کھلاڑیوں کی تعداد میں اضافے کے لیے، تمام صوبوں میں متعدد ٹورنامنٹ کا انعقاد صوبائی ٹورنامنٹ کمیٹیوں کی نگرانی میں کیا جائے گا۔

ان ساری کوششوں نے اپنا رنگ دکھایا اور 1956ء میں پاکستان پہلی بار فائنل تک پہنچا اور بھارت کے مدِمقابل ہوا، جس کے لیے پوری ہاکی کی دنیا انتظار کر رہی تھی۔ اس میچ میں بھارت نے صرف پینلٹی کارنر کے ذریعے ایک گول کیا، جو ایک متنازع گول تھا کیونکہ جب بھارت کی جانب سے بال کو ہٹ کیا گیا تو اس وقت پاکستان گول لائن پر تیار ہی نہیں تھا یہاں تک کہ بھارتی فل بیک کھلاڑی رندھیر سنگھ جینٹل کی ہٹ ٹھیک نہیں تھی کیونکہ بال بورڈ پر لگنے کے بجائے نیٹ سے ٹکرائی تھی۔

یہ وہ وقت تھا جب پاکستان تقریباً فاتح بن ہی گیا تھا اور مسلسل بھارتی فتوحات کو روک لیا تھا، اور اولمپک کے کسی بھی کھیل میں پہلا تمغہ حاصل کرنے کے لیے بالکل قریب پہنچ گیا تھا۔

1960ء میں روم اولمپک سے پہلے 1958ء میں منعقد ہونے والے ایشین گیمز میں طلائی تمغہ جیت کر یقینی طور پر قومی ٹیم نے کچھ اعتماد ضرور حاصل کیا تھا۔ یہ کسی بھی عالمی مقابلوں میں پہلا موقع تھا جب بھارت دوسرے نمبر پر آیا تھا۔

مزید پڑھیے: ہاکی ہمارا قومی کھیل، سال 2018 میں اس پر کیا گزری؟

یہ تقریباً وہی ٹیم تھی جو 1956ء سے ایک ساتھ کھیل رہی تھی۔ انتخاب کیے گئے پہلے 11 کھلاڑیوں میں سے 8 کھلاڑی 1956ء کے فائنل میں بھارت کے خلاف کھیل چکے تھے۔

کپتان عبدالحمید حمیدی پہلی پوزیشن پر براجمان ہیں
کپتان عبدالحمید حمیدی پہلی پوزیشن پر براجمان ہیں

تو زیادہ تر کھلاڑیوں کو یہ معلوم تھا کہ یہ ان کا اولمپک طلائی تمغہ جیتنے کا آخری موقع ہے۔ ٹیم کی قیادت ایک بار پھر عبدالحامد حمیدی نے کی، جو 1948ء سے اولمپک کھیلنے والے واحد کھلاڑی تھے۔ حمیدی کے اثر و رسوخ کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے آخری وقت میں ظفر حیات کے ساتھ ظفر احمد خان کی جگہ لی۔ پاکستان نے شاندار آغاز لیتے ہوئے آسانی سے تینوں پول گیمز جیت لیے۔

کوارٹر فائنل میں، پاکستان نے مغربی جرمنی سے سخت مقابلہ کیا۔ سینٹر فارورڈ کھلاڑی عبدالوحید کی وجہ سے پاکستان نے برتری حاصل کی لیکن جرمنی نے جلد ہی مقابلہ برابر کردیا۔ پھر بائیں جانب سے نصیر بندہ کی وجہ سے فتح قومی ٹیم کو نصیب ہوئی۔ اگرچہ پاکستان نے اسپین کے خلاف منظور حسین عاطف کے پینلٹی کارنر کی وجہ سے سیمی فائنل جیت لیا۔ قومی ٹیم کی برتری پر کوئی شک و شبہ کبھی نہیں تھا حالانکہ حمیدی کو پینالٹی کی دھمکی سے بچایا گیا تھا۔

اب روم کے قدیم شہر میں ٹائٹنز کے مقابلوں کے لیے اسٹیج سجایا گیا۔ بھارتی ٹیم جو اولمپک ہاکی کے 6 ٹائٹل اپنے نام کرچکی تھی اب اس کا مقابلہ پختہ اور پُرعزم پاکستانی ٹیم کے خلاف تھا۔

گرین شرٹس نے ایک ساتھ مل کر حملہ کرنا شروع کیا۔ فائنل کے 13ویں منٹ میں حمیدی نے دائیں جانب کے کنارے سے گزار کر بال کو نور عالم کی جانب پھینکا۔ نور عالم کا سینٹر نصیر بندہ کے بائیں جانب موجود تھا۔ گیند ان کی ہاکی اسٹک پر رک گئی اور پھر بھارتی گول کیپر کے بائیں جانب فلیش کی طرح پلٹ گئی۔ یہ گول فیصلہ کن ثابت ہوا جس نے اولمپک ہاکی میں بھارت کی 32 سالہ بالادستی کا خاتمہ کردیا۔

ٹورنامنٹ میں پاکستان کے چھا جانے کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے 25 گول اسکور کیے جب کہ ان کے خلاف صرف ایک گول ہوا۔

مشہور انگریزی ہاکی صحافی آر ایل ہالینڈ نے ان الفاظ میں حمیدی اور بندہ کو خراج تحسین پیش کیا ہے کہ ’حتمی تجزیہ کیا جائے تو یہ انسائڈ فارورڈز حمیدی اور نصیر تھے جنہوں نے پاکستان کے لیے طلائی تمغہ جیتا جس میں سب سے آگے حمیدی ہے۔ وہ نصیر یا بھارتی پیٹر کی طرح شاندار چالاکی نہیں دکھاتا، لیکن ان میں سے کسی میں بھی اس کی ہوشیار حکمت عملی کی تعریف کرنے کی سمجھ یا مہم پر عبور حاصل نہیں ہے۔ میری نظر میں وہ آج دنیا میں سب سے زیادہ تعمیری لحاظ سے آگے ہے‘۔

مزید پڑھیے: ہاکی میں نئی روح کیسے پھونکی جائے؟

یہ کپتان حمیدی کے لیے اہم کارنامہ تھا، جو مسلسل 4 اولمپک مقابلوں میں حصہ لینے کے بعد ہاکی سے ریٹائر ہوئے۔ یہ منیجر اے آئی ایس دارا کے لیے بھی ایک اہم موقع تھا کہ انہوں نے جیتنے والے اسکواڈ کو آگے بڑھانے کے لیے ان تمام سالوں میں سخت محنت کی تھی۔

قومی ٹیم کی فتح کی خبر ہر اخبار کی زینت بنی
قومی ٹیم کی فتح کی خبر ہر اخبار کی زینت بنی

لیکن سب سے اہم بات یہ کہ یہ پوری پاکستانی قوم کے لیے خوشی کا موقع تھا جس نے آخرکار اولمپک کھیلوں کا پہلا طلائی تمغہ جیتا تھا۔ ٹیم کی وطن واپسی پر والہانہ استقبال کیا گیا اور ان کے اعزاز میں تمام بڑے شہروں میں زبردست تقاریب کا انعقاد کیا گیا۔

یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ 1960ء کے اولمپکس ہاکی کا فائنل یورپی لنک اپ پر پورے مغربی یورپ میں نشر کیا گیا تھا۔ یہ پہلا موقع بھی تھا جب ٹی وی نے اتنے بڑے پیمانے پر اولمپکس کو کور کیا، جبکہ 1948ء میں سب سے پہلے اولمپک کھیلوں کو لندن میں گھریلو ٹیلی ویژن پر دکھایا گیا تھا۔

اولمپکس مقابلوں میں کامیابی یہ بتاتی ہے کوئی بھی قوم عالمی برادری میں کہاں کھڑی ہے۔ سال 2020ء میں پاکستان کے پہلے طلائی تمغے کی ڈائمنڈ جوبلی منائی گئی۔ یہی وہ کامیابی تھی جس کے نتیجے میں ہاکی کو ملک کا باضابطہ طور پر قومی کھیل قرار دیا گیا تھا۔

ٹیم:

  • گول کیپرز: عبدالرشید اور رونی گارڈینر
  • فل بیکس: منیر دار، منظور عاطف، خورشید عاظم اور بشیر احمد
  • ہاف بیکس: غلام رسول چوہدری، انور احمد خان، حبیب علی کڈی، ظفر حیات
  • فارورڈز: نور عالم، عبدالحامد حمیدی، عبدالوحید خان، نصیر بندہ، مطیع اللہ خان، ظفر علی ظفری، مشتاق احمد، خواجہ زکا الدین
  • اسکوررز: عبدالحامد حمیدی 9، عبدالوحید 6، نصیر بندہ 5، منیر دار 1، ایم ایچ عاطف 1، مطیع اللہ 1، انوار اے خان 1، نور عالم 1

یہ مضمون 6 ستمبر 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں