اگست میں 29 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ریکارڈ

اپ ڈیٹ 24 ستمبر 2020
اگست کے مہینے میں پاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹ میں 29 کروڑ 70 لاکھ ڈالر اضافہ ریکارڈ کیا گیا— فائل فوٹو: اے پی پی
اگست کے مہینے میں پاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹ میں 29 کروڑ 70 لاکھ ڈالر اضافہ ریکارڈ کیا گیا— فائل فوٹو: اے پی پی

کراچی: اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق اگست کے مہینے میں پاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹ میں 29 کروڑ 70 لاکھ ڈالر سرپلس ریکارڈ کیا گیا جہاں گزشتہ سال اسی عرصے میں 60 کروڑ 10 لاکھ ڈالر کا خسارہ ریکارڈ کیا گیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جولائی میں 50 کروڑ 8 لاکھ ڈالر کے مقابلے میں کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس میں 71 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے جن کو پہلے بتائے گئے اعدادوشمار 42 کروڑ 40 لاکھ ڈالر سے بڑھا دیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: اسٹیٹ بینک کا آئندہ دو ماہ کیلئے شرح سود 7 فیصد پر برقرار رکھنے کا اعلان

جولائی سے اگست تک مجموعی طور پر کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس 80 کروڑ 50 لاکھ ڈالر ریکارڈ کیا گیا جہاں مالی سال 20 کے اسی عرصے میں ایک ارب 21 کروڑ ڈالر کا خسارہ ہوا تھا۔

نئے مالی سال میں لگاتار دوسرے کرنٹ اکاؤنٹ اضافے کے ساتھ ایسا لگتا ہے کہ ملک نے اپنے بیرونی محاذ کو بہتر بنایا ہے جسے مالی سال 2018 میں 20 ارب ڈالر کے خسارے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو سرپلس میں تبدیل کرنے والا اہم عنصر درآمدات میں تیزی سے کمی ہے حالانکہ اس تمام عرصے میں برآمدات میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔

اب تک ملک کے بیرونی اکاؤنٹ کے تمام بڑے اشاریے برآمد کے علاوہ مثبت ہیں، حکومت کی طرف سے حمایت اور ترغیبات کے ساتھ ساتھ اسٹیٹ بینک کے ذریعے فراہم کی جانے والی سبسڈی کے باوجود برآمدات میں بہتری نظر نہیں آ سکی۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ ایک بار پھر سرپلس ہوگیا

برآمد کنندگان بین الاقوامی منڈیوں میں کووڈ 19 کے مارکیٹ پر مرتب ہونے والے اثرات کے پیچھے پناہ لیتے ہیں جو دنیا بھر میں کھپت کی سطح کو متاثر کرتے ہیں اور ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کی رفتار کو بھی کم کردیا ہے۔

پیر کے روز اسٹیٹ بینک کے گورنر ڈاکٹر رضا باقر نے کہا کہ خطرات میں سے ایک مقامی سطح پر کووڈ-19 کی دوسری لہر آنے کا خدشہ ہے کیونکہ یورپ اور امریکا کی پاکستان کی بڑی منڈیوں میں سردیوں کے دوران واقعات میں ممکنہ اضافے کا خدشہ ہے، برآمدات اور درآمدات دونوں میں اگست میں 19 فیصد کی کمی واقع ہوئی۔

گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں ملک نے اعلیٰ ترسیلات وصول کرنے میں بھی کامیابی حاصل کی جو مالی سال 21 کے پہلے دو مہینوں میں 31 فیصد اضافے سے 4.86 ارب ڈالر ہو گئی ہے۔

رضا باقر نے پیر کو پریس بریفنگ کے دوران اس تاثر کو مسترد کردیا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی نوکریوں سے چھانٹی کی وجہ سے اس میں اضافہ ہوا ہے بلکہ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ کورونا وائرس کی وبا کے دوران سمندر پار پاکستانیوں نے اپنے اہلخانہ کو زیادہ معاونت فراہم کی، خاص طور پر کووڈ-19 سے متاثرہ ان کے لواحقین کو بیرون ملک مقیم شہریوں کی زیادہ سے زیادہ مدد فراہم کرنے کی وجہ ہے، انہوں نے بتایا کہ ملک میں ترسیلات زر جولائی میں ریکارڈ ماہانہ سطح پر پہنچ گئیں اور گزشتہ تین مہینوں میں یہ 2 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔

مزید پڑھیں: کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 77.92 فیصد کمی، 2 ارب 96 کروڑ 66 لاکھ ڈالرز رہ گیا

اسٹیٹ بینک نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک ٹوئٹ میں کہا کہ کارکنوں کی ترسیلات زر، لچکدار زر مبادلہ کی شرح اور نسبتاً نرم درآمدی قیمتوں کو متوجہ کرنے کی کوششیں جاری اکاؤنٹ کے توازن میں بہتری کو بیان کرتی ہیں۔

غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) نے بھی ملک کو بیرونی اخراجات کو کم کرنے اور زر مبادلہ کے ذخائر بنانے میں مدد دی جو 12.5 ارب ڈالر پر موجود ہے اور یہ 3 ماہ تک درآمد کے لیے کافی ہے۔

مالی سال 21 کے پہلے دو ماہ میں ایف ڈی آئی میں مثبت رجحان رہا جو سالانہ بنیادوں پر 40 فیصد اضافے کے ساتھ 22 کروڑ 67 لاکھ ڈالرز پر پہنچ گیا جہاں گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں یہ 16کروڑ 20 لاکھ ڈالر رہا تھا۔


یہ خبر 24 اگست 2020 بروز جمعرات ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں