پانی کی منصفانہ تقسیم کیلئے سینیٹ کمیٹی کا ٹیلی میٹری نظام لانے پر غور

اپ ڈیٹ 26 ستمبر 2020
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کا اجلاس میں معاملہ زیر غور آیا—فائل فوٹو:اے پی پی
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کا اجلاس میں معاملہ زیر غور آیا—فائل فوٹو:اے پی پی

اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل نے پانی مختص کرنے اور ٹیلی میٹری سسٹم کی عدم تنصیب سے متعلق صوبوں کی شکایات پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور متعلقہ حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ 15 دن کے اندر ٹیلی میٹری سسٹم کا پی سی-ون پیش کریں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینیٹر شمیم آفریدی کی زیرصدارت اجلاس میں پانی کی تقسیم سے متعلق شکایات پر سینیٹر گیان چند کی جانب سے پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں جمع کروائی گئی تحریک پر بات ہوئی۔

سینیٹر گیان چند نے کہا کہ پانی کی تقسیم پر بار بار شکایات آرہی ہیں اور بین الصوبائی ہم آہنگی خطرے میں پڑ گئی ہے کیونکہ حکام تقریباً 2 دہائیوں سے ٹیلی میٹری کے منصوبے پر عمل درآمد نہیں کرسکے ہیں۔

اس دوران کمیٹی کا مؤقف تھا کہ جب تک اعداد و شمار مستند نہیں ہوتے تب تک پانی کی تقسیم مناسب نہیں ہوسکتی۔

مزید پڑھیں: پاکستان آبی وسائل سے معاشی فائدہ حاصل نہیں کررہا، ورلڈ بینک

دوران اجلاس انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے چیئرمین زاہد عباس نے کمیٹی کو بتایا کہ 2004 میں ٹیلی میٹری کا نظام نصب کیا گیا تھا تاہم وہ ناکام رہا۔

انہوں نے کہا کہ صوبوں میں تقسیم کے لیے دستیاب پانی کی مجموعی مقدار 118 ملین ایکڑ فٹ (ایم اے ایف) تھی لیکن اصل اوسط دستیاب پانی 104 ایم اے ایف ہے، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ کمی کا حساب لگانے کے بعد باقی پانی صوبوں میں بانٹ دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ مزید ڈیموں کی تعمیر کے بعد پانی کی دستیابی میں بہتری آسکتی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں سینیٹر زاہد عباس نے کہا کہ 2004 میں نصب ٹیلی میٹری نظام نے فنی خرابی کی وجہ سے کام نہیں کیا تھا۔

ارسا نے ورلڈ بینک کے قرض کے ذریعے گزشتہ سال دوبارہ ٹیلی میٹری منصوبے پر کام کیا اور دو کمپنیوں نے بولی میں حصہ لیا تاہم چند تکنیکی مسائل کی وجہ سے ارسا نے دوبارہ بولی کا فیصلہ کیا تھا لیکن عالمی بینک نے اس پر اعتراض کیا اور یہ قرض ہی منسوخ کردیا گیا۔

بعدازاں وزارت آبی وسائل کے اجلاس میں انڈس ریور سسٹم اتھارٹی کے داخلی وسائل پر ٹیلی میٹری سسٹم نصب کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: زبردست بارشوں سے آبی ذخائر کی سطح میں ریکارڈ اضافہ

اس موقع پر ارسا کے چیئرمین نے زور دیا کہ واپڈا کو پی سی ون تیار کرتے وقت گزشتہ ٹیلی میٹری سسٹم کے تجربے کو دھیان میں رکھنا چاہیے۔

زاہد عباس نے یاد دلایا کہ 'ارسا 1994 میں قائم کیا گیا تھا لیکن 2012 تک اس کے اپنے وسائل نہیں تھے جس کے بعد حکومت نے صوبوں اور جوہری بجلی گھروں کو پانی کے استعمال کے سیس کی اجازت دی تھی'۔

انہوں نے کہا کہ ٹیلی میٹری سسٹم کے لیے 67 کروڑ روپے درکار ہیں جبکہ اس وقت 86 کروڑ روپے دستیاب ہیں جو سیس کے ذریعہ جمع کیے گئے ہیں جبکہ واٹر ریگولیٹر فی الحال واپڈا سے پی سی ون کا منتظر ہے۔

علاوہ ازیں ادارے کے رکن نے کمیٹی کو بتایا کہ وہ 10 دن میں پی سی ون کو حتمی شکل دے دیں گے۔

انہوں نے وضاحت کی کہ پی سی ون کو حتمی شکل دینے میں تاخیر گزشتہ سسٹم کی ناکامی کی وجوہات سے متعلق مشاہدات شامل ہونے کی وجہ سے ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ نظرثانی شدہ ڈیزائن میں اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ کم سے کم انسانی مداخلت ہو۔

تبصرے (0) بند ہیں