بھارت میں سیکیولرازم کی جگہ ہندو راشٹریہ نے لی ہے، وزیراعظم کا اقوام متحدہ میں خطاب

اپ ڈیٹ 26 ستمبر 2020
وزیراعظم نے عالمی برادری کو مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے لیے کوششیں ادا کرنے پر زور دیا—فوٹو: پی آئی ڈی
وزیراعظم نے عالمی برادری کو مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے لیے کوششیں ادا کرنے پر زور دیا—فوٹو: پی آئی ڈی

وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ میں اپنے خطاب میں کورونا وائرس سے دنیا کو درپیش مسائل پر بات کی جبکہ بھارت کی حکومت کے انتہاپسندانہ اقدامات سے بھی دنیا کو آگاہ کیا۔

وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 75 ویں اجلاس میں آن لائن خطاب کرتے ہوئے کہا کہمجھے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے ایک بار پھر خطاب کرتے ہوئے خوشی ہورہی ہے، میں والکن بوسکر کو جنرل اسمبلی کے 75 ویں اجلاس کی صدارت کے لیے منتخب ہونے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور سبکدوش صدر تیجانی محمد بانڈے کی خدمات کو سراہتا ہوں اور خاص کر کووڈ-19 بحران کے دوران ان کا کردار بہترین رہا۔

انہوں نے کہا کہ ہم اس مشکل وقت میں سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کی قیادت کو بھی خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ جب سے میری حکومت آئی ہے مسلسل کوشش کررہے ہیں کہ پاکستان میں بنیادی سطح پر تبدیلیاں لائی جائیں، ہمارے نئے پاکستان کا تصور بھی پیغمبر خاتم النبیین حضرت محمدﷺ کی قائم کردی ریاست مدینہ کے ماڈل پر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسی ریاست جہاں انصاف اور انسانی اقدار پر مبنی ایسا معاشرے کا قیام ہو جہاں حکومت کی تمام پالیسیوں کا محور اپنے شہری اور ان کو غربت سے نکالنے کے لیے ہوں اور منصفانہ نظم و نسق قائم کرنا ہو۔

انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے حصول کے لیے ہمیں امن و استحکام کی ضرورت ہے، یہی وجہ ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی کا مقصد اپنے ہمسائیوں کے ساتھ امن اور تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا ہے۔

اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا75 واں اجلاس انتہائی اہم سنگ میل ہے کیونکہ یہ دنیا میں واحد ادارہ ہے جو امن و استحکام کے حصول میں مدد کرسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے اقوام متحدہ کی وجہ سے یہ سمجھنے کا موقع ہے کہ ہم مل کر اپنے لوگوں کے ساتھ کیے گئے وعدے پورے کریں۔

وزیراعظم نے کہا کہ آج ورلڈ آرڈر کے بنیادی اہداف، طاقت کے یک طرفہ عدم استعمال یا خطرہ،لوگوں کے لیے حق خود ارادیت، مسادی خود مختاری اور ریاستوں کی علاقائی سالمیت، اندرونی معاملات میں عدم مداخلت، بین الاقوامی تعاون جیسے تصورات کو سوچ سمجھ کر ختم کر دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:وزیر اعظم کا اشرف غنی سے رابطہ، افغان امن عمل کیلئے پاکستان کی پختہ حمایت کا اعادہ

ان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی معاہدوں کا تمسخر اڑانے کے ساتھ ساتھ ان کونظر انداز کیا جارہاہے، بڑی طاقتوں کے درمیان از سر نو کشیدگی کے باعث اسلحے کی نئی دوڑ شروع ہو رہی ہے، تنازعات بڑھ رہے ہیں اور ان میں شدت آرہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا میں فوجی قبضے اور غیر قانونی الحاق کے ذریعے لوگوں کے حق خود ارادیت کو دبایا جارہا ہے۔

عمران خان نے کہا کہ پروفیسر نوم چومسکی کے مطابق انسان جوہری جنگ کے بڑھتے ہوئے خطرے، ماحولیاتی تبدیلی اور آمرانہ حکومتوں کے بڑھتے ہوئے رجحان گزشتہ صدی میں پیش آنے والی پہلی اور دوسری جنگ کے مقابلے میں زیادہ خطرے کا باعث ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں ایسے تباہ کن حالات سے بچنے کے لیے مل کر آگے بڑھنا ہوگا، ہمیں اس بات پر یقین ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں قانون اور اصولوں کے مطابق تعاون ہونا چاہیے اور آپس میں کسی صورت ٹکراؤ نہ ہو، ہم پوری شدت کے ساتھ عالمی سطح پر متفقہ لائحہ عمل کی حمایت کرتے ہیں۔

کورونا وائرس نے دنیا کی معیشت کو نقصان پہنچایا

وزیراعظم عمران خان نے کووڈ-19 کی وبا نے پوری انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لیا، اس باہمی طور پر جڑی ہوئی دنیا میں اس وقت کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وبا کی روک تھام کے لیے کیے گئے لاک ڈاؤن کی وجہ سے گزشتہ صدی کی عظیم کساد بازاری کے بعد پھر بدترین کساد بازاری کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وبا نے غریب ترین ممالک کے ساتھ ساتھ تمام ملکوں میں پسماندہ طبقے کوشدید متاثر کیا۔

مزید پڑھیں:پاکستان 'اسمارٹ لاک ڈاؤن' متعارف کرانے والوں میں سے ہے، وزیر اعظم

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں ہم نے شروع میں بھانپ لیا تھا کہ ہم نے کئی امیر ممالک کی طرح سخت لاک ڈاؤن کیا تو وبا سے زیادہ بھوک سے شہریوں کی ہلاکتیں زیادہ ہوں گی بجائے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی لیے ہم نے اسمارٹ لاک ڈاؤن کی پالیسی اپنائی،ہم نے وائرس سے شدید متاثرہ علاقوں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے، ہم نے فوری طور پر اپنی زراعت اور اس کے بعد تعمیرات کے شعبے کو کھول دیا جس سے لوگوں کی اکثریت روزگار سے وابستہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسی دوران مالی مشکلات کے باوجود ہماری حکومت نے صحت کے شعبے اور غریبوں کی مدد کے لیے 8 ارب ڈالر رکھے اور احساس پروگرام کے ذریعے براہ راست نقد رقم دی گئی، جس کے بعد چھوٹے درجے کے کاروبار کو سبسڈی دی۔

کورونا وائرس سے نمٹنے کی حکمت عملی بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے اسمارٹ لاک ڈاؤن پر شروع میں شدید تنقید کی گئی لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ہم نے نہ صرف وائرس پر قابو پایا بلکہ معیشت کو بھی مستحکم کرنے میں کامیاب ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم معاشرے کے انتہائی غریب طبقے کو لاک ڈاؤن کے اثرات سے محفوظ رکھنے میں کامیاب ہوئے۔

عمران خان نے کہا کہ آج پاکستان کا کورونا وائرس کے خلاف اقدامات کو کامیابی کی کہانی گردانا جاتاہے اور اس کے حوالے دیے جاتے ہیں تاہم اب بھی ہم اس مشکل سے باہر نہیں آئے اور اسی طرح دوسرا کوئی ملک بھی مشکل سے مبرا نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ یہ ابتدا سے ہی واضح تھا کہ ترقی پذیر ممالک کو کورونا ک بحران سے نمٹنے اور بحالی کے لیے مالی مدد کی ضرورت ہوگی، ترقی پذیر ممالک کو معاشی جگہ بنانے کے لیے قرضوں میں نرمی ایک بہترین لائحہ عمل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے اپریل کے آغاز میں ہی قرضوں میں سہولت سے متعلق عالمی سطح پر اقدامات کے کے لیے آواز بلند کی تھی۔

مزید پرھیں:صحت انصاف کارڈ کا نام تبدیل کرنے، پی ٹی آئی کا پرچم ہٹانے کا فیصلہ

کورونا سے پیدا ہونے والے مالی خسارے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم جی-20 کی طرف سے قرضوں کی معطلی اور آئی ایم ایف، عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور اقوام متحدہ کے اداروں کی جانب سے ہنگامی بنیاد پر مالی امداد کے اقدامات کو سراہتے ہیں لیکن یہ کافی نہیں ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ آئی ایم ایف اندازہ لگا چکی ہے کہ ترقی پذیر ممالک کو بحران سے نمٹنے کے لیے 2.5 کھرب ڈالر سے زائد کی ضرورت ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ قرضوں کی باقاعدہ معطلی کو مزید توسیع دینے اور اس کے دائرہ کار کو بڑھانے کی ضرورت ہوگی اور قرضوں میں اضافی سہولتی اقدامات بھی کرنے ہوں گے، ترقیاتی بینکوں کو خاطرخوا مالی امداد کی فراہمی یقینی بنانی چاہیے۔

کورونا کے خلاف دنیا بھر میں ہونے والے اقدامات سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ امیرممالک نے وبا سے نمٹنے اور بحالی کے لیے 10 کھرب ڈالر فراہم کیے، انہیں ترقی پذیر ملکوں کو نئے ایس ڈی آر کے لیے کم از کم 500 ارب ڈالر کی مدد فراہم کرنی چاہیے۔

'آف شور ٹیکس پناگاہوں میں پیسے منتقل نقصان دہ'

وزیراعظم نے کہا کہ میں نے گزشتہ برس جنرل اسمبلی خطاب میں کہا تھا کہ ٹیکسوں سے بچنے کے لیے ترقی پذیر ملکوں سے امیر ممالک اور آف شور ٹیکس پناگاہوں میں رقوم کی غیرقانونی منتقلی سے ناقابل تلافی نقصان ہورہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس اقدام سے ترقی پذیر ممالک میں غربت بڑھی ہے، جو رقم انسانی ترقی کے لیے استعمال کی جاسکتی ہے، وہ بدعنوان اشرافیہ کھا جاتی ہے، زرمبادلہ میں کمی سے کرنسی کی قیمت بھی کم ہوجاتی ہے اور اس سے غربت میں اضافہ ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پیچیدہ طریقہ کار کے باعث ان چوری شدہ وسائل کی واپسی کے لیے ہونے والی کوششوں میں کامیابی ناممکن ہے، طاقت ور منی لانڈرر کی بہترین وکلا تک رسائی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ فائدہ ملنے کی وجہ سے امیر ممالک اس مجرمانہ سرگرمیوں کو ختم کرنے کے لیے سیاسی عزم دکھانے سے عاری ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ اگر اس عمل کا راستہ نہ روکا گیا تو امیر اور غریب ممالک کے درمیان عدم مساوات بڑھتی رہے گی، جس کے نتیجے میں بڑا عالمی بحران پیدا ہوگا، جو موجودہ ہجرت سے بڑا بحران ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ امیر ممالک جب منی لانڈرنگ کرنے والوں کی لوٹی ہوئی دولت کے لیے محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتے ہیں تو وہ انسانی حقوق اور انصاف پر قائم نہیں رہ سکتے۔

انہوں نے کہا کہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی معاونت کو روکنے والی فعال حکومتیں موجود ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ میں مطالبہ کرتا ہوں کہ رقوم کی غیر قانونی منتقلی اور لوٹی ہوئی دولت کی فوری واپسی کو یقینی بنانے کے لیے عالمی لائحہ عمل کی تیاری کی کوششوں میں آگے بڑھے۔

انہوں نے کہا کہ اس بات کو سمجھنا اہم ہے کہ ترقی پذیر ملکوں کو امیر ملکوں سے ملنے والی امداد ہماری بدعنوان اشرافیہ کی طرف سے منتقل ہونے والی رقم کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔

موسمیاتی تبدیلی

میں اس سال پھر ماحولیاتی تبدیلی کے باعث درپیش خطرے کے بارے میں اپنے خیالات کو دہرانا چاہتا ہوں، اسٹریلیا، سائبیریا، کیلیفورنیا اور برازیل میں لگنے والی غیرمعمولی آگ، غیر متوقع سیلاب اور درجہ حرارت میں ریکارڈ اضافے سے ہمیں اپنی نسلوں کے لیے فکرمند ہوناچاہیے۔

انہوں نے کہا کہ پیرس معاہدے میں ہونے والے وعدوں خاص کر ماحولیاتی تبدیلی کے لیے سالانہ 100 ارب ڈالر جمع کرنے کے ہدف کو ہر صورت حاصل کرنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ کاربن کے اخراج میں پاکستان حصہ بہت کم ہے لیکن ہمارا شمار ماحولیاتی تبدیلی سے شدید متاثر ہونے والی چند ممالک میں ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے پہل کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ ہم سجھتے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلے کو حل کرنا عالمی ذمہ داری ہے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم نے ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے اگلے تین برسوں میں 10 ارب درخت لگانے کا فیصلہ کیا۔

'وبا میں اتحاد کے بجائے تنازعات میں اضافہ ہوا'

وزیراعظم نے کہا کہ وبا سے نوع انسانی کو متحد کرنے کا موقع میسر ہوا تھا، بدقسمتی سے قوم پرستی، عالمی تنازعات اور متعدد ریاستوں میں کمزور اقلیتوں کے خلاف نسلی اور مذہبی منافرت اور تشدد میں اضافہ ہوا اور اس سے اسلاموفوبیا میں بھی اضافہ ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ کئی ممالک میں مسلمانوں کو کسی خوف کے بغیر نشانہ بنایا جارہا ہے، ہماری مقدس زیارات کو تاراج کیا جارہا ہے، ہمارے پیغمر خاتم النبیین حضرت محمدﷺ کی توہین کی جارہی ہے، قرآن پاک کوجلایا گیا اور یہ سب اظہار رائے کی آزادی کے نام پر کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:بھارت میں مسلمان سمیت تمام اقلیتیں غیر محفوظ ہیں، وزیر خارجہ

عمران خان نے کہا کہ چارلی ہیبڈو کی طرف سے توہین آمیز خاکوں کی ایک مرتبہ اشاعت سمیت پورے یورپ میں ہونے والے حالیہ واقعات اس کی تازہ مثالیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ قصداً اشتعال انگیزی اورنفرت و تشدد پر ابھارنے کو عالمی سطح پر غیرقانونی قرار دیا جائے۔

وزیراعظم نے مطالبہ کیا کہ یہ اسمبلی اسلاموفوبیا کے خاتمے کے لیے عالمی دن کا اعلان کرے اور اس برائی کے خلاف متحد ہوں جو تقسیم کا باعث ہے۔

بھارت کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ دنیا میں بھارت واحد ملک ہے جہاں ریاست کی سرپرستی میں اسلاموفوبیا پروان چڑھ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ آر ایس ایس کا نظریہ ہے جو بدقسمتی سے آج بھارت پر حکمرانی کررہا ہے، اس انتہاپسند نظریے کی تشکیل 1920 کی دہائی میں ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ آر ایس ایس کے بانیان نازیوں سے متاثر تھے اور اپنے نظریات ان سے مستعار لیے۔

ان کا کہنا تھا کہ نازی یہودیوں کو نشانہ بناتے تھے، آر ایس ایس مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہیں اور کسی حد تک عیسائیوں کو بھی نشانہ بناتے ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ ان کا ماننا ہے بھارت صرف ہندوؤں کے لیے ہے اور دیگر برابر کے شہری نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ گاندھی اور نہرو کے سیکولرزم کی جگہ ہندو راشٹریہ بنانے کے خواب نے لی ہے اور یہاں تک کہ 20 کروڑ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو ختم کرکے ہندو ریاست بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ 1992 میں بابری مسجد کو شہید کیا گیا اور 2002 میں تقریباً دو ہزار مسلمانوں کا قتل عام وزیراعلیٰ نریندر مودی کی قیادت میں کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ 2007 میں آر ایس ایس کے غنڈوں نے سمجھوتہ ایکسپریس ٹرین پر سوار 50 سے زائد مسلمانوں کو زندگی جلادیا۔

مزید پڑھیں:سال 2019: بھارت میں اقلیتوں کیلئے خوف و تشدد کی علامت کا ایک اور برس

ان کا کہنا تھا کہ آسام میں امتیازی قوانین کے ذریعے 20 لاکھ مسلمانوں کو جبراً شہریت سے محروم کیے جانے کا خطرہ ہے۔

بھارت میں اقلیتوں کو درپیش مظالم کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اطلاعات ہیں کہ بھارت کے مسلمان شہریوں کی بڑی تعداد کو حراستی کیمپوں میں بھیجا جارہا یے، مسلمانوں کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے جھوٹے الزام کے تحت بدنام کرنے کے ساتھ ساتھ نشانہ بھی بنایا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت میں مسلمانوں کو بعض اوقات طبی امداد سے بھی محروم رکھا جاتا اور ان کے کاروبار کا بائیکاٹ کیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گاؤ رکھشا مسلمانوں پر بلا خوف و خطر حملے کررہے ہیں اور قتل کررہے ہیں، نئی دہلی میں گزشتہ فروری میں پولیس کی ملی بھگت سے مسلمانوں کو چن چن کر قتل کیا گیا، ماضی میں بڑے پیمانے پر رجسٹریشن کا عمل نسل کشی کا باعث بن چکا ہے۔

مثالوں سےواضح کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جرمنی 1935 میں نیورمبرگ قوانین اور 1982 میں میانمار کی مثال ہے، ہندو روا نظریہ کا مقصد 30 کروڑ سے زائد انسانوں مسلمانوں، عیسائیوں اور سکھوں کو محدود کرنا ہے، جس کی تارخ میں مثال نہیں ملتی اور بھارت کے مستقبل کے لیے بھی یہ نیک شگون نہیں ہے۔

کشمیر میں بھارت کے مظالم

مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی ماورائے قانون کارروائیوں کو اجاگر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت نے72 برسوں سے جموں و کشمیر پر غیر قانونی طور پر قابض ہے، کشمیر کے عوام کی خواہشات کے برعکس اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ بھارت نے گزشتہ برس 5 اگست کو غیر قانونی اور یک طرفہ طور پر مقبوضہ علاقوں کی متنازع حیثیت تبدیل کرنے کی کوشش کی اور اضافی فوجی تعینات کر دیا جس سے فوجیوں کی تعداد 9 لاکھ ہوگئی جس سے 80 لاکھ کشمیری محصور ہوگئے۔

انہوں نے کہا کہ تمام کشمیری قیادت کو قید کردیا گیا، مکمل کرفیو نافذ کیا گیا، مواصلاتی رابطے مکمل طور پر معطل کیے گئے۔

یہ بھی پڑھیں:لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی، بھارتی سفارتکار کو طلب کرکے احتجاج

ان کا کہنا تھا کہ بھارتی قابض افواج نے پرامن مظاہرین پر پیلٹ گن سمیت اپنی طاقت کا ظالمانہ استعمال کیا،مجموعی سزائیں اور سیکڑوں کشمیری نوجوانوں کو جعلی مقابلوں میں ماورائے عدالت قتل کیا اور ان کی میتیں بھی لواحقین کے حوالے نہیں کی گئیں۔

جنرل اسمبلی سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ کشمیر میڈیا اور آواز اٹھانے والوں کو ظالمانہ طریقے سے خاموش کردیا گیا۔

عمران خان نے کہا کہ یہ تمام اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر، انسانی حقوق کونسل کے خصوصی نمائندوں کی رپورٹس میں ریکارڈ کا حصہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عالمی برداری ان سنگین خلاف وریزں کی تحقیقات کرے اور انسانیت سوز مظالم اور ریاستی دہشت گردی میں ملوث بھارتی شہریوں اورفوجی اہلکاروں کو کیفر کردار تک پہنچائے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ انہیں مکمل استثنیٰ حاصل ہے۔

عمران خان نے کہا کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کی اس ظالمانہ مہم کا بنیادی مقصد جموں و کشمیر کے خود ساختہ حل کو حتمی عملی جامہ پہنانا ہے اور اسی لیے فوجی محاصرے کے بعد مقبوضہ علاقے کی آبادی کے ڈھانچے کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور یہ کوشش کشمیریوں کی شناخت کو مٹانے کے لیے ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کا مقصد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے مطابق استصواب رائے کے نتائج کو متاثر کرناہے، یہ اقدامات اقوام متحدہ کے چارٹر، سلامتی کونسل کی قراردادوں اور بین الاقوامی قانون خاص کر چوتھے جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ مقبوضہ علاقے کی آبادی کا ڈھانچہ تبدیل کرنا ایک جنگی جرم ہے، بہادر کشمیری کبھی بھی بھارت ظلم کے آگے سر نہیں جھکائیں گے۔

مزید پڑھیں:مسئلہ کشمیر کا حل جنوبی ایشیا کے امن و استحکام کے لیے اہم ہے، طیب اردوان

انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کی جدوجہد مقصد کے حصول، بھارتی قبضے سے آزادی کے لیے ہے اور انہوں نے نسل در نسل قربانیاں دی ہیں۔

پاکستان کے تعاون کا عزم دہراتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کی حکومت اور عوام کشمیری بھائی اور بہنوں کے حق خود ارادیت، قانونی طو پر جائز جدوجہد کی حمایت جاری رکھے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں اپنے غیر قانونی اقدامات اور مظالم سے توجہ ہٹانے کے لیے، ایک خطرناک کھیل شروع کردی اور کھیل رہا ہے اور جوہری طاقتوں کے خطے میں پاکستان کے خلاف فوجی جارحیت کو ہوا دے رہا ہے۔

اقوام متحدہ میں اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ پاکسان نے بھارت کی جانب سے کنٹرول لائن (ایل او سی) اور ورکنگ باؤنڈری پر کی جانے والی خلاف ورزیوں، معصوم شہریوں کو نشانہ بنانے کے باوجود پاکستان نے زیادہ تحمل کا مظاہر کررہاہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے عالمی برادری کو بھارت کی طرف سے جھوٹے فلیگ آپریشن اور ناقص منصوبہ بندی سے مسلسل آگاہ کرتے رہے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اگر آر ایس ایس کی قیادت میں بھارت کی فسطائی مطلق العنان حکومت نے پاکستان کے خلاف کوئی جارحیت کی تو اس کا سامنا ایسے قوم سے ہوگا جو آخری لمحے تک اپنے دفاع میں لڑے گی۔

اقوام متحدہ کو واضح کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب تک جموں و کشمیر کا مسئلہ عالمی قوانین کے مطابق حل نہیں ہوتا اس وقت تک جنوبی ایشیا میں پائیدار امن قائم نہیں ہوسکتا۔

انہوں نے کہا کہ کشمیر کو درست طور پر نیوکلیئر فلش پوائنٹ سے تعبیر کیا جتا ہے، سلامتی کونسل کو ہر صورت ایک تباہ کن تنازع کو روکنا اور اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کرانا ہوگا، جس طرح مشرقی تیمور میں کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی کونسل نے گزشتہ سال تین مرتبہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے حالات کا جائزہ لیا، اس پر مناسب عملی اقدامات بھی اٹھانے چاہیئں۔

اقوام متحدہ کومسئلہ کشمیر پر سنجیدہ اقدامات کرنے پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت کی طرف سے کشمیریوں کی نسل کشی کی لٹکتی ہوئی تلوار کو روکنے کے لیے بھی آگے آنا چاہیے۔

عمران خان نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ پرامن حل کی بات کی ہے، اسی لیے بھارت پر بھی لازم ہے کہ وہ 5 اگست سے کیے گئے اقدامات کو واپس لے، فوجی محاصرہ اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو ختم کرے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں اورکشمیر کے عوام کی خواہشات کے مطابق مسئلے کے حل کے لیے تیار ہو۔

'افغانستان کے امن عمل میں پاکستان کے کردار سے مطمئن ہیں'

وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ پاکستان خطے میں امن کا خواہش مند ہے اور افغانستان میں پرامن سیاسی حل چاہتا ہے اور گزشتہ 2 دہائیوں سے مسلسل یہ مؤقف رہا ہے کہ افغانستان کا کوئی فوجی حل نہیں ہے اور آگے بڑھنے کا واحد راستہ سیاسی حل تھا اور ہے، جس میں افغانستان کی پوری سیاست قیادت شامل ہو۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اس عمل میں مکمل طور پر تعاون کیا اور اس کا نتیجہ 29 فروری 2020 کو امریکا-طالبان امن معاہدے کی صورت میں سامنے آیا۔

یہ بھی پڑھیں:پاکستان کا بین الافغان مذاکرات میں 'بگاڑ پیدا کرنے والوں' کو شکست دینے کا عزم

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان مطمئن ہے کہ ہم نے اپنے حصے کی ذمہ داری پوری کی ہے، افغان قیادت کو سمجھنا ہوگا کہ امن کے لیے یہ تاریخی موقع ہے اور جنگ زدہ ملک میں امن کو بحال کردینا چاہیے۔

افغانستان کے امن عمل پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بین الافغان مذاکرات کے تحت 12 ستمبر سے شروع ہوئے مذاکرات کے ذریعے جامع سیاسی حل نکالیں، یہ عمل ہر صورت کسی مداخلت یا اثر و رسوخ کے بغیر افغانستان کے اندر ہونا چاہیے اور ان کی سرپرستی میں ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ افغان پناہ گزینوں کی جلد واپسی بھی سیاسی حل کا حصہ ہونا چاہیے، دودہائیوں کی جنگ کے بعد ضروری ہے کہ افغانستان کے اندر اور باہر سے اس عمل کونقصان پہنچانے والے عناصر کو اجازت نہیں دی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن سے ترقی اور علاقائی رابطوں کےلیے نئی راہیں کھلیں گی۔

آزاد فلسطین کی حمایت

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ فلسطین کا مسئلہ آج بھی ایک رستا ہوا زخم ہے، اس کے حتمی اور منصفانہ حل مشرق وسطیٰ اور دنیا کے لیے ناگزیر ہوچکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ فلسطینی علاقے کا غیر قانونی الحاق،غیرقانونی بستیوں کی تعمیر اور فلسطین کے عوام کے لیے غیر انسانی رہائشی صورت حال خاص کر غزہ کے حالات کے نتیجے میں خطے میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔

مزید پڑھیں: مسئلہ کشمیر و فلسطین اقوام متحدہ میں سب سے نمایاں دو تنازعات ہیں، وزیر خارجہ

عمران خان نے کہا کہ پاکستان دو ریاستی حل کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی قرار دادوں کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حدود کے مطابق حمایت کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 1967 سے قبل کی سرحدوں پر واپسی اور القدس شریف ایک متحدہ اور آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہوں۔

پاکستان اپنا کردار ادا کرتا رہے گا

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ آج بھی بین الاقوامی تنازعات سے نبردآزما ہونے، امن و سلامتی کی ترویج مساوی بنیادوں پر ترقیاتی عمل کو فروغ دینے اور عالمی مسائل کو حل کرنے کے لیے مجموعی اقدام کرنے کا بہترین قانونی ادارہ ہے۔

وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ میں سیکریٹری جنرل پر زور دیتا ہوں کہ وہ عالمی تنازعات کی روک تھام کے لیے آگے بڑھیں، انہیں سلتے ہوئے علاقائی تنازعات اور دیرینہ مسائل کے حل کے لیے سربراہیر اجلاس طلب کرنے چاہیئں۔

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کو موجودہ دور کے چیلنجز سے نمتنے کے لیے فوری کردار ادا کرنا چاہیے، سلامتی کونسل سمیت اقوام متحدہ میں جامع اصلاحات ضروری ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ اس سے جمہوریت، احتساب، شفافیت اور استعداد کار کو وسیع تر فروغ دیا جاسکے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اس عمل اور جدوجہدر میں دوسرے رکن ممالک کے ساتھ فعال کردار ادا کرتا رہے گا تاکہ تنازعات سے پاک دنیا وجود میں آئے جہاں امن، سلامتی اور خوش حالی کے مواقع سب کے لیے یکساں ہوں۔

تبصرے (0) بند ہیں