اسلام آباد ہائی کورٹ کا بیوروکریٹس کی ترقی برقرار رکھنے کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 05 اپريل 2021
بھرتی اور ترقی کے لیے اہلیت اور معیار کو بڑھانے کا حکومت کو حق ہے تاکہ سروسز میں کارکردگی کو بہتر کیا جاسکے، عدالت عالیہ - فائل فوٹو:فیس بک
بھرتی اور ترقی کے لیے اہلیت اور معیار کو بڑھانے کا حکومت کو حق ہے تاکہ سروسز میں کارکردگی کو بہتر کیا جاسکے، عدالت عالیہ - فائل فوٹو:فیس بک

اسلام آباد ہائیکورٹ نے 20 اور 21 گریڈ میں بیوروکریٹس کی ترقیوں کو برقرار رکھتے ہوئے ان کے خلاف دائر درخواستوں کو مسترد کردیا اور اعلان کیا کہ بھرتی اور ترقی کے لیے اہلیت اور معیار کو بڑھانے کا حکومت کو حق ہے تاکہ سروسز میں کارکردگی کو بہتر کیا جاسکے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس کیس میں درخواست گزاروں میں موجودہ لاہور کیپیٹل سٹی پولیس آفیسر (سی سی پی او) عمر شیخ اور تقریبا دو درجن کے قریب برطرف بیوروکریٹس شامل تھے، جنہوں نے سرکاری ملازمین پروموشن رولز 2019 کو بھی چیلنج کیا تھا۔

عدالت عالیہ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس لبنا سلیم پرویز پر مشتمل ڈویژن بینچ نے مشاہدہ کیا کہ منتخب نمائندوں کی کامیابی اور ان کی کارکردگی بنیادی طور پر سول بیوروکریسی کے معیار، کارکردگی اور اہلیت پر مبنی ہے۔

مزید پڑھیں: بیوروکریٹس کی ترقی کے نئے اصول اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج

بینچ نے نوٹ کیا کہ اس عہدے کے علاوہ جس میں سرکاری ملازم فائز ہے، کوئی بھی دوسرا اس سے اوپر کے عہدے پر اپنا دعویٰ نہیں کرسکتا۔

عدالت نے مشاہدہ کیا کہ 'اس طرح آئین کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو مؤثر طریقے سے ادا کرنے کے لیے سرکاری ملازمین کی اہلیت، پیشہ ورانہ مہارت اور سالمیت ریاست کے ایگزیکٹو کے لیے ایک اہم ترین حصہ بن جاتی ہے'۔

عدالتی حکم کے مطابق ملک کی مؤثر حکمرانی کا دارومدار سرکاری ملازمین کے معیار پر ہے جن سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ سیاسی طور پر غیرجانبدار اور اپنے فرائض پیشہ ورانہ انداز میں انجام دیں گے کیونکہ وہ ریاست کا روز کا انتظام چلانے کے ذمہ دار ہیں۔

2019 کے پروموشن رولز کے مطابق سینٹرل سلیکشن بورڈ (سی ایس بی) ممبران انٹیلی جنس رپورٹس کی بنیاد پر نمبروں پر غور کرنے کے لیے بھی آزاد ہیں کیونکہ قوانین میں خصوصی طور پر بتایا گیا ہے کہ اعلی عہدوں پر ترقی کے لیے سی ایس بی افسران کے خلاف موصول معلومات کو مدنظر رکھ سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت نے سینئر بیوروکریٹس کی ترقی کے طریقہ کار میں تبدیلی کردی

پہلے کی پریکٹس کے برعکس جہاں سی ایس بی کے 15 فیصد نمبر تھے، 2019 کے قواعد نے بورڈ کی صوابدید 30 فیصد ہوچکی ہے۔

آئی ایچ سی بینچ کی رائے تھی کہ درخواست گزاروں نے متعدد بنیادوں کو اٹھایا لیکن خلاصہ یہ ہے کہ مرکزی شکایت سی ایس بی کی تشخیص اور مؤخر الذکر کے مقرر کردہ نمبروں سے متعلق ہے جو ضابطہ 18 کے ٹیبل میں بیان کردہ تصدیقی فارمولے کے تحت مختص کی گئی تھی۔

آئی ایچ سی بینچ کی رائے تھی کہ درخواست گزاروں نے متعدد بنیادوں کو اٹھایا لیکن خلاصہ یہ ہے کہ مرکزی شکایت سی ایس بی کی ساپیکش تشخیص اور مؤخر الذکر کے مقرر کردہ نمبروں سے متعلق ہے جو ضابطہ 18 (3) (بی) 2019 کے قواعد میں بیان کردہ تصدیقی فارمولے کے تحت مختص کی گئی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں