پروین رحمٰن قتل: مقدمہ ایک ماہ میں نمٹانے کے عدالتی حکم کی نقل عدالت میں طلب

30 ستمبر 2020
اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی سربراہ محترمہ پروین رحمٰن کو 13 مارچ 2013 کو اورنگی ٹاؤن میں قتل کردیا گیا تھا— فائل فوٹو بشکریہ ٹوئٹر
اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی سربراہ محترمہ پروین رحمٰن کو 13 مارچ 2013 کو اورنگی ٹاؤن میں قتل کردیا گیا تھا— فائل فوٹو بشکریہ ٹوئٹر

کراچی: انسداد دہشت گردی کی عدالت نے حقوق کے لیے سرگرم مشہور سماجی کارکن پروین رحمٰن کے قتل سے متعلق مقدمے کو سپریم کورٹ کی جانب سے ایک ماہ کے اندر نمٹانے سے متعلق جاری کردہ حکم کی نقل طلب کر لی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پانچ ملزمان عبدالرحیم سواتی، ان کے بیٹے محمد عمران سواتی اور تین شریک ملزمان ایاز شمزئی عرف سواتی، امجد حسین خان اور احمد خان عرف احمد علی عرف پپو کشمیری پر پروین رحمٰن کے قتل کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

مزید پڑھیں: پروین رحمٰن قتل کیس: 5 سال میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی،سپریم کورٹ برہم

اپنی پوری زندگی ملک کے غریب محلوں کی ترقی کے لیے وقف کرنے والی اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی سربراہ محترمہ پروین رحمٰن کو 13 مارچ 2013 کو اورنگی ٹاؤن میں ان کے دفتر کے قریب گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔

منگل کے روز معاملہ انسداد دہشت گردی کی عدالت نمبر 12 کے جج کے سامنے آیا جو سینٹرل جیل کے اندر جوڈیشل کمپلیکس میں مقدمہ چلا رہے ہیں۔

جج کو بتایا گیا کہ درخواست گزار عقیلہ اسمٰعیل نے سندھ پولیس کے بجائے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کی جانب سے کیس کی دوبارہ تحقیقات کے لیے درخواست دی تھی اور 25 ستمبر کو اس مقدمے کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے ٹرائل کورٹ کو ایک ماہ کے اندر مقدمے کا خاتمہ کرنے کی ہدایت کی۔

جج نے شکایت کنندہ کے وکیل سے سماعت کی اگلی تاریخ کو عدالت عظمیٰ کے حکم کی کاپی پیش کرنے کو کہا اور معاملہ 16 اکتوبر کے لیے مقرر کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: ’پروین رحمٰن کے قتل میں طالبان نہیں، لینڈ مافیا ملوث تھی‘

پروین رحمٰن کی قتل کی تحقیقات کے لیے قائم تین مشترکہ تحقیقاتی ٹیموں کے سربراہوں کی جانب سے ثبوت ریکارڈ کیے بغیر فیصلہ منظور کرنے کے بعد سندھ ہائی کورٹ نے معاملات پر حکم امتنازع جاری کردیا تھا جس کی وجہ سے ہائی پروفائل کیس میں مقدمے کی سماعت ڈیڑھ سال تک تعطل کا شکار رہی۔

مقتول سماجی کارکن کی بہن شکایت کنندہ عقیلہ نے تینوں جے آئی ٹیز کے سربراہوں کے ثبوتوں کی ریکارڈنگ کے حصول کے لیے اعلیٰ عدالت سے رجوع کیا تھا اور ایف آئی اے کے ذریعے قتل کی تازہ تحقیقات کے لیے عدالت عظمیٰ کے سامنے بھی ایک الگ درخواست دائر کی تھی۔

استغاثہ کے مطابق دوران تفتیش حراست میں لیے گئے کچھ ملزمان نے اس جرم میں اپنے ملوث ہونے کا اعتراف کیا تھا اور انکشاف کیا تھا کہ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے مقامی رہنماؤں نے مبینہ طور پر کارکن کو ہلاک کرنے کے لیے طالبان عسکریت پسندوں کی خدمات حاصل کی تھیں۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت نمبر 12 کے جج پہلے ہی ملزموں کے بیانات فوجداری ضابطہ اخلاق کی دفعہ 342 کے تحت درج کرچکے ہیں۔

مزید پڑھیں: پروین رحمٰن قتل کیس: ’پولیس کی بدنیتی نے کیس خراب کر دیا‘

22 دسمبر 2018 کو ٹرائل کورٹ نے تفتیش کاروں کو طلب کرنے کے لیے فوجداری ضابطہ اخلاق (سی آر پی سی) کے سیکشن 540 کے تحت دائر عقیلہ اسمٰعیل کی درخواست خارج کردی تھی اور سرکاری وکیل دفاع سے حتمی دلائل ریکارڈ کرنے کے لیے معاملہ ملزمان کے لیے وکیل اور شکایت کنندہ کے وکیل کے مابین طے کرنے کی ہدایت کی تھی۔

لیکن شکایت کنندہ نے سندھ ہائی کورٹ میں ٹرائل کورٹ کے حکم کے خلاف نظر ثانی کی درخواست دائر کی اور ٹرائل کورٹ کو جے آئی ٹی کے سربراہوں کو اپنے بیانات ریکارڈ کرنے کے لیے طلب کرنے کی ہدایت کرنے کی استدعا کرتے ہوئے استدلال کیا کہ جن تفتیش کاروں نے ملزمان سے تفتیش کی تھی ان کی شہادتیں مقدمے کی سماعت کے لیے ایک اہم ثبوت ہے۔

شکایت کنندہ کے وکیل صلاح الدین پنہور کے مطابق سندھ ہائی کورٹ نے عبوری طور پر حکم امتناع جاری کیا تھا جس نے جے آئی ٹی کے سربراہان کے ثبوت ریکارڈ کیے بغیر قتل کیس میں فیصلہ سنانے سے روک دیا تھا۔

مزید پڑھیں: پروین رحمٰن کے قتل کیس کا مرکزی ملزم گرفتار

اس کے بعد سے فریقین کی طرف سے حتمی دلائل ریکارڈ کرنے کے اہم مرحلے پر مقدمہ تعطل کا شکار ہے۔

اب تک کے موجود شواہد

فریقین کے وکلا نے ڈان کو بتایا کہ استغاثہ نے اس کیس میں تقریبا 35 گواہان کا بیان درج کیا تھا، ان میں سے ٹرائل کورٹ نے استغاثہ کے 20 سے 21 گواہوں کے بیانات قلمبند کردیے ہیں۔

گواہوں میں اس وقت کے ایس ایس پی انویسٹی گیشن اختر فاروق سمیت پولیس اہلکار بھی شامل تھے جنہوں نے ملزم رحیم عرف سواتی کا اعترافی بیان ریکارڈ کیا تھا۔

ایڈووکیٹ صلاح الدین پنہور نے دعویٰ کیا کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 21 کے تحت سینئر سپرنٹنڈنٹ کے عہدے کے پولیس آفیسر کے سامنے ریکارڈ شدہ اعترافی بیان کو ہی فوجداری ضابطہ اخلاق کی دفعہ 164 کے تحت درج اعتراف جرم تسلیم کیا جائے گا۔

وکیل فاروق اختر کے ریکارڈ اپنے مبینہ بیان میں ملزم رحیم نے اعتراف کیا تھا کہ اس نے ’پلاٹوں کے تنازع‘ کے سبب پروین رحمٰن کے قتل کی منصوبہ بندی کی تھی اور انہیں قتل کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پروین رحمٰن قتل کیس: حکومت کو دھمکیاں دینے والے عناصر کیخلاف کارروائی کا حکم

دوسری طرف تینوں ملزمان کے وکیل شاہ امروز خان نے شکایت کی کہ شکایت کنندہ کے فریق مختلف تاخیری حربے استعمال کررہے ہیں تاکہ غیرضروری طور پر مقدمے کی کارروائی میں تاخیر کی جا سکے، جو طویل عرصے سے جیل میں قید رہنے والے ملزمان کے حقوق کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ نئی جے آئی ٹی نے اپنی آخری رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی تھی اور 600 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بزنس ٹائیکون ملک ریاض اور کچھ سیاستدانوں سے تفتیش کی گئی ہے۔

وکیل صفائی نے دعویٰ کیا کہ رحیم کے مبینہ اعترافی بیان کو قلمبند کرتے وقت اس وقت کے ایس ایس پی نے واضح غلطیاں کیں لہٰذا یہ کوئی قابل قبول ثبوت نہیں تھا۔

اکتوبر 2019 میں وفاقی حکومت نے ان لوگوں کی ہدایت پر چوتھی مشترکہ تفتیش تشکیل دی تھی۔


یہ خبر 30 ستمبر 2020 بروز بدھ کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں