فرانس میں جسم، چہرے اور زبان پر ٹیٹوز اور سرجری کے ذریعے آنکھوں کے سفید حصے کو سیاہ کرانے والے اسکول ٹیچر کو کنڈر گارٹن کے بچوں کو پڑھانے سے روک دیا گیا۔

اسکول کی جانب سے یہ فیصلہ والدین کی شکایت پر کیا گیا جنہوں نے کہا تھا کہ ان کا بچہ استاد سے خوفزدہ ہوتا ہے۔

برطانوی خبررساں ادارے 'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق 35 سالہ استاد سیلوین ہیلین 6 سال سے زائد عمر کے بچوں کو ابھی بھی پڑھا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میرے تمام طلبہ اور ان کے والدین کو مسئلہ نہیں ہوتا تھا کیونکہ بنیادی طور پر وہ لوگ مجھے جانتے تھے۔

سیلوین ہیلین کے مطابق جسم پر ٹیٹو بنوانے میں تقریباً 460 گھنٹے صرف ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا یہ صرف تب ہوتا ہے جب لوگ مجھے دور سے دیکھتے ہیں تو وہ اس بارے میں بہت برا سوچ لیتے ہیں۔

فوٹو:رائٹرز
فوٹو:رائٹرز

انہوں نے کہا کہ گزشتہ برس وہ پیرس کے علاقے کے ایک سکول میں پڑھارہے تھے جہاں ایک 3 سالہ بچے کے والدین نے متعلقہ انتظامیہ سے شکایت کی تھی کہ اسے مجھے دیکھنے کے بعد رات کو ڈراؤنے خواب آتے ہیں۔

سیلوین ہیلین کے مطابق کچھ ماہ بعد اسکول حکام نے انہیں آگاہ کیا کہ وہ اب کنڈرگارٹن کے بچوں کو نہیں پڑھائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ میرا خیال ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے لیا گیا فیصلہ انتہائی افسردہ ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ان کے ٹیٹوز بچوں کو خود سے مختلف نظر آنے والے لوگوں کو اپنانا سکھاتے ہیں۔

دوسری جانب مقامی ایجوکیشن اتھارٹی کے ترجمان نے کہا کہ سیلوین ہیلین کے ساتھ معاہدہ طے پایا تھا کہ وہ کنڈر گارٹن کے بچوں کو پڑھانے سے خود کو دور رکھیں۔

ترجمان نے کہا کہ 6 سال سے کم عمر بچے ان کی ظاہری حالت سے خوفزدہ ہوسکتے ہیں۔

بی ایف ایم ٹی وی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'جو بچے مجھے دیکھتے ہیں وہ برداشت کرنا سیکھتے ہیں، جب وہ بڑے ہوں گے تو شاید ان میں نسل پرستی اور ہم جنس پرستوں سے نفرت جیسے رجحانات نہ ہوں، وہ معذور لوگوں کو ایسے نہیں دیکھیں گے جیسے یہ کوئی سرکس ہو‘۔

ہیلین کو یہ تمام ٹیٹوز بنوانے میں چار سو ساٹھ گھنٹے کا وقت لگا۔

اس میں ان کی آنکھ میں سیاہی بھرنے کا وقت بھی شامل ہے جس کے لیے انھیں سوئٹزرلینڈ جانا پڑا تھا کیونکہ فرانس میں یہ غیر قانونی ہے۔

تاہم سیلوین ہیلین کا کہنا تھا کہ وہ اپنے منتخب کردہ کیرئیر سے جڑے رہیں گے، انہوں نے کہا کہ میں پرائمری اسکول ٹیچر ہوں اور اپنی ملازمت سے محبت کرتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ جب وہ 27 برس کے تھے تب جسم پر ٹیٹوز بنوانا شروع کیے تھے اور اس وقت کو لندن کے ایک نجی اسکول میں پڑھارہے تھے۔

سیلوین ہیلین نے کہا کہ انہیں اُمید ہے کہ ان کے طلبہ ان لوگوں کو قبول کرنا سیکھیں گے جو مختلف ہیں، شاید جب وہ بڑے ہوں گے تو ان میں نسل پرستی اور ہم جنس پرستوں سے نفرت جیسے رجحانات نہ ہوں۔

تبصرے (0) بند ہیں