ریپ کے واقعے پر مبنی مختصر فلم 'بلیو -دی کلائیڈو اسکوپ'

اپ ڈیٹ 30 ستمبر 2020
یہ مختصر فلم سال 2015 میں پاکستان کے ایک دیہات میں 10 سالہ بچی کے ریپ کے واقعے پر مبنی ہے — فوٹو: اسکرین شاٹ
یہ مختصر فلم سال 2015 میں پاکستان کے ایک دیہات میں 10 سالہ بچی کے ریپ کے واقعے پر مبنی ہے — فوٹو: اسکرین شاٹ

پاکستان میں ریپ کا شکار ہونے والے افراد اور اس کے بعد معاشرے کی جانب سے ان سے کیے جانے والے سلوک کی ایک سچی کہانی پر مبنی مختصر فلم ریلیز کردی گئی۔

'بلیو-دی کلائیڈو اسکوپ' کے عنوان سے جاری اس فلم میں یہ بتایا اور دکھایا گیا ہے کہ ایک طرف جہاں ریپ کا شکار ہونے والے افراد صدمے سے گزرتے ہیں تو دوسری جانب معاشرے کا رویہ بھی متاثرہ فرد اور اس کے خاندان کو دکھ سے دوچار کرتا ہے۔

9 منٹ 24 سیکنڈ پر مشتمل اس مختصر فلم میں ایک خاتون کی کہانی ہے جو 10 برس کی عمر میں ریپ کا شکار ہوتی ہے اور اس ہولناک واقعے کی ویڈیو انٹرنیٹ پر وائرل کی جاتی ہے اور وہ بڑے ہونے کے بعد بھی صدمے میں رہتی ہے۔

فلم میں دکھایا گیا ہے کہ 10 سالہ بچی کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی وجہ سے متاثرہ بچی اور اس کے اہلخانہ کو کس کرب سے گزرنا پڑا۔

مزید پڑھیں: موٹر وے پر خاتون کے 'گینگ ریپ' پرشوبز شخصیات میں غم و غصہ

یہ مختصر فلم سال 2015 میں پاکستان کے ایک دیہات میں 10 سالہ بچی کے ساتھ ریپ پر مبنی ہے جسے 4 افراد کی جانب سے ریپ کا نشانہ بنانے کے بعد ویڈیو آن لائن وائرل کی گئی تھی۔

جب یہ ویڈیو بی بی سی اردو کو موصول ہوئی تھی تو ان کی جانب تحقیق بھی کی گئی تھی۔

بعدازاں پولیس نے ملزمان کو گرفتار بھی کیا تھا اور انہیں ریپ، اغوا کے جرم اور ویڈیو شیئر کرنے کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔

فلم میں ریپ کا شکار ہونے والی زہرہ نامی لڑکی کا کردار اداکارہ سندس شاہین نے ادا کیا ہے اور وہ کہتی ہیں کہ ایسے واقعات کو سننے اور اسے محسوس کرنے میں فرق ہے۔

انڈیپنڈنٹ اردو کو دیے گئے انٹرویو میں سندس شاہین نے کہا کہ متاثرہ لڑکی کا کردار ادا کرتے ہوئے ایک سین میں مجھے بہت زیادہ چیخنا تھا، ان کا کہنا تھا کہ میں نے اس کیفیت کو خود پر طاری کرلیا تھا اور سین مکمل ہونے کے باوجود میں اس سے باہر نہیں آسکی تھی۔

انہوں نے کہا کہ میرے ہاتھ، پاؤں جیسے بے جان ہوگئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: موٹروے ریپ کیس: نیلم منیر کا ملک میں عدالتی اصلاحات کا مطالبہ

سندس شاہین کا کہنا تھا کہ ریپ کا شکار ہونے والے افراد اگر خاموش رہیں تو وہ اندر ہی اندر مرجاتے ہیں لیکن اگر وہ آواز اٹھائیں تو ان کے ارد گرد موجود لوگ انہیں مار دیتے۔

'بلیو-دی کلائیڈو اسکوپ' کے لکھاری اور ڈائریکٹر دانیال افضل خان نے بتایا کہ سال 2018 کے آغاز میں قصور میں زینب نامی بچی کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بعد انہیں یہ فلم بنانے کا خیال آیا تھا۔

دانیال افضل خان نے کہا کہ انہوں نے سوچ لیا تھا کہ اب مزید چپ نہیں رہنا بلکہ ریپ کے واقعات کا ذکر جو ہمارے معاشرے میں ایک ٹیبو ہے، اسے ختم کرنا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ میں نے سوچ لیا تھا کہ اس معاملے پر بولنا ہے تاکہ ریپ کا شکار ہونے والے افراد کو ایسے واقعات کا ذمہ دار قرار دینے کا سلسلہ ختم ہو سکے۔

دانیال افضل خان نے کہا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے فلم کی ریلیز میں تاخیر ہوئی لیکن حال ہی میں موٹر وے پر ریپ کا واقعہ سامنے آیا تھا تو میں نے سوچا اس فلم کو اب ریلیز کرنے کا یہی وقت ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں