پنجاب کے شوگر ملز مالکان پر کاشتکاروں کا 10ارب روپے کا سود واجب الادا

اپ ڈیٹ 03 اکتوبر 2020
صوبے میں شوگر ملوں کے پچھلے 10 سالوں میں کاشتکاروں کو مؤخر ادائیگیوں پر 10 ارب روپے واجب الادا ہیں— فائل فوٹو: اے ایف پی
صوبے میں شوگر ملوں کے پچھلے 10 سالوں میں کاشتکاروں کو مؤخر ادائیگیوں پر 10 ارب روپے واجب الادا ہیں— فائل فوٹو: اے ایف پی

لاہور: پنجاب میں شوگر ملرز پر گزشتہ دہائی کے دوران کاشتکاروں کو دی گئی مؤخر شدہ ادائیگیوں پر سود کے لگ بھگ 10 ارب روپے واجب الادا ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پنجاب کے کین کمشنر محمد زمان وٹو نے دعویٰ کیا کہ میرے دفتر کے حساب کتاب کے مطابق صوبے میں شوگر ملوں کے گزشتہ 10 برسوں میں کاشتکاروں کو کی جانے والی تاخیر سے ادائیگی پر مجموعی طور پر 10 ارب روپے واجب الادا ہیں۔

مزید پڑھیں: حکومت چینی بحران کی فرانزک رپورٹ عوام کے سامنے لے آئی

جمعہ کو ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پنجاب شوگر فیکٹریز کنٹرول قانون نے ملز مالکان کو پابند کیا تھا کہ اگر خریداری کے 15دن کے اندر وہ کاشتکاروں کو رقم ادا نہیں کریں گے تو انہیں 11فیصد کی شرح سے رقم ادا کرنی ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ چونکہ 24 ستمبر کو شوگر فیکٹریز کنٹرول آرڈیننس کے اجرا تک یہ خلاف ورزی ناقابل شناخت تھیں اس لیے ملز مالکان اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے تھے اور تاخیر سے ادائیگی کے لیے کاشتکاروں کو سود کے طور پر ایک پیسہ بھی ادا نہیں کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ قانون میں ترمیم کے بعد خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف ایف آئی آر رجسٹر کی جا سکتی ہے اور کاشتکاروں کو ان کا جائز حق مل سکتا ہے۔

ادائیگی کے اعداد و شمار جمع کرنے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بیشتر فیکٹریوں کی انتظامیہ نے پنجاب شوگر فیکٹریز کنٹرول قانون 1950 کے رول 16 کی ذیلی شق10 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھی اعداد و شمار فراہم کرنے سے انکار کردیا تھا اور کین کمشنر کو لکھے گئے خط میں بنیادی حقوق کا بہانہ بنا کر اس کے پیچھے پناہ لینے کی کوشش کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: اداروں کو شوگر مافیا کے خلاف کارروائی سے روکا نہیں جاسکتا، اسلام آباد ہائیکورٹ

انہوں نے وضاحت کی کہ ترمیم شدہ قانون کے تحت اعداد و شمار فراہم کرنے سے انکار کو قابل گرفت اور ناقابل ضمانت جرم بھی بنایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کرشنگ سیزن کے آغاز سے ہی گنے کے کاشتکاروں کے مفادات کے تحفظ کو حکومت نے ملرز پر چھوڑنے کے بجائے اس مقصد کے لیے کوئی تاریخ طے کرنے کے لیے ایک قانون متعارف کرانے کا بھی فیصلہ کیا۔

"ڈرافٹ قانون کی جانچ پڑتال مکمل ہوچکی ہے اور ممکن ہے کہ اسے ایک دو دن میں آرڈیننس کے ذریعے پیش کیا جائے۔"

انہوں نے کہا کہ کرشنگ سیزن کے آغاز کی تاریخ زیادہ تر ممکنہ طور پر ہر سال 15 نومبر مقرر کی جائے گی اور اس کی خلاف ورزی کرنے والی (ملوں) پر 50 لاکھ روپے یومیہ جرمانہ عائد کیا جائے گا۔

ادھر پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے گنے کے شعبے کو نظم و ضبط کے دائرے میں لانے پر دُہائی دیتے ہوئے کہا کہ آنے والی حکومت ’جزوی‘ قواعد و ضوابط کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جس کے تحت گنے کی امدادی قیمت طے کی جارہی ہے لیکن شوگر انڈسٹری کو مارکیٹ کی قوتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: جنوبی پنجاب میں شریف خاندان کی شوگر ملیں ختم کرنے کا حکم

جس دن نیا قنون نافذ کیا گیا اس دن کمشنر کو لکھے گئے خط میں پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کا کہنا تھا کہ 4 مہینے گنے کی کرشنگ کا سیزن ہے جبکہ صارفین کو سال بھر اس کی فراہمی کے لیے شوگر اسٹورز میں رکھا جاتا ہے، مطلب یہ ہے کہ سرمایہ کاری پورے سال تک پھنس جاتی ہے۔

اس میں دلیل دی گئی کہ چینی کی پیداواری اخراجات کا 80 فیصد گنے کی قیمت ہوتی ہے لہٰذا 15 دن کے اندر اندر گنے کے کاشتکاروں کو ادائیگی کی شرط ملوں کے لیے کیش فلو کا مسئلہ پیدا کردے گی۔

اس میں کہا گیا کہ اس وقت تک ادائیگی کا کوئی مسئلہ نہیں تھا جب تک حکومت ملرز سے تمام چینی کا ذخیرہ خرید نہیں رہی تھی اور پھر اسے خود مارکیٹ میں مہیا کررہی تھی جبکہ اس مدت کے دوران یہ صنعت پروان چڑھ چکی تھی اور تقسیم کے وقت 4 ملوں سے بڑھ کر یہ تعداد تقریباً 100 ہو گئی۔

تاہم رپورٹ کے مطابق دیگر تینوں صوبوں میں ایسا کوئی قانون موجود نہ ہونے کے سبب پنجاب ملوں کے ساتھ بھی امتیازی سلوک برتا جاتا ہے۔

دریں اثنا کسان اس منطق پر سوال اٹھاتے ہیں کہ ملرز کو سال بھر قسطوں میں چینی فروخت کرنی پڑتی ہے جبکہ وہ صرف 4ماہ کے عرصے میں خام مال گنے کی خریداری کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت پنجاب کی شوگر مافیا کو قابو کرنے کیلئے قانون سازی

پاکستان کسان اتحاد کے صدر خالد محمود کھوکھر نے کہا کہ کیا دنیا کے کسی بھی دوسرے شعبے میں مارکیٹنگ کا کوئی طریقہ کار ہے جہاں آپ کوئی سامان خریدتے ہو اور برسوں بعد اس کے خلاف ادائیگی کرتے ہوں؟

ان کا کہنا تھا کہ دوسرے ممالک میں جس وقت گنے سے لدی گاڑیوں کا وزن مشینوں پر کیا جاتا ہے، اسی وقت ادائیگی کاشت کاروں کے بینک کھاتوں میں خود بخود منتقل کی جاتی ہے۔

مزید یہ کہ ان کا کہنا تھا کہ جب حکومت نے کچھ ملوں میں پڑے چینی کے ذخیروں کے خلاف کارروائی کی تھی تو ان کے مالکان نے التجا کی تھی کہ یہ فروخت شدہ اسٹاک ہے اور تھوک فروشوں/خریداروں کی طرف سے رکھے گئے ہیں۔


یہ خبر 3 اکتوبر 2020 بروز ہفتہ ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں