'نقیب اللہ کی موت جعلی پولیس مقابلے میں سینے پر گولی لگنے سے ہوئی'

اپ ڈیٹ 03 اکتوبر 2020
نقیب اللہ محسود سمیت 4 افراد کو جعلی پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا— فائل فوٹو: اے ایف پی
نقیب اللہ محسود سمیت 4 افراد کو جعلی پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا— فائل فوٹو: اے ایف پی

کراچی: انسداد دہشت گردی کی عدالت کو بتایا گیا ہے کہ ماڈل بننے کے خواہشمند وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان نقیب اللہ محسود کا ’جعلی‘ پولیس مقابلے کے دوران سینے میں 2 گولیاں لگنے سے انتقال ہوا اور یہ گولیاں ان کے اوپری حصے کو چیرتے ہوئے باہر نکل گئی تھیں۔

اس بات کا انکشاف عدالت میں استغاثہ کے گواہ ڈاکٹر عبدالغفار نے کیا جو جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر (جے پی ایم سی) میں اس وقت میڈیکل لیگل آفیسر تھے اور انہوں نے مقتول کا پوسٹ مارٹم کیا تھا۔

مزید پڑھیں: نقیب اللہ قتل کیس میں راؤ انوار پر فرد جرم عائد

سابق ایس ایس پی راؤ انوار پر اپنے 2 درجن ماتحت عہدیداروں کے ساتھ مل کر نقیب اللہ اور 3 دیگر افراد کو 13 جنوری 2018 کو ایک 'جعلی پولیس مقابلے میں طالبان عسکریت پسندوں سے منسوب کرنے کے بعد ہلاک کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا'۔

جب معاملہ سینٹرل جیل کے اندر جوڈیشل کمپلیکس میں مقدمے کی سماعت کرنے والے انسداد دہشت گردی کی عدالت نمبر III کے جج کے سامنے آیا تو سابق ایس ایس پی راؤ انوار اور کچھ دیگر ملزمان ضمانت پر عدالت میں موجود تھے جبکہ دیگر کو جیل سے لایا گیا تھا۔

سرکاری وکیل نے اس کیس میں اپنا بیان قلمبند کرنے کے لیے گواہ ڈاکٹر عبدالغفار کو پیش کیا، انہوں نے نقیب اللہ محسود سمیت 4 متاثرین کی پوسٹ مارٹم جانچ کی رپورٹس سمیت اپنا بیان فائل کیا۔

نقیب کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں میڈیکل لیگل آفیسر نے بتایا کہ اس کی موت کی وجہ گولی تھی جہاں 2 گولیاں اس کے سینے میں سامنے کی جانب داخل ہوئیں اور اسی جگہ پر اس کی پیٹھ سے باہر نکل گئیں جس سے ایک دو سینٹی میٹر سوراخ ہوا اور سینے میں چوٹ سے وہ فوت ہو گئے۔

یہ بھی پڑھیں: ’پولیس مقابلے میں نوجوان کا قتل‘، بلاول بھٹو اور وزیر داخلہ سندھ نے نوٹس لے لیا

گواہ نے مزید بتایا کہ مقابلے کے دوران جن تین دیگر متاثرین کو گولی ماری گئی ان کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی۔

استغاثہ نے ملزم کے دفاعی وکیل کے ذریعہ 2دیگر گواہوں سب انسپکٹر ممتاز اور سب انسپکٹر سلیم کو ان کے معائنہ کے لیے پیش کیا، ایک نجی گواہ عبدالرحیم کو اس کی گواہی ریکارڈ کرنے کے لیے پیش کیا گیا۔

تاہم سابق ایس ایس پی راؤ انوار کے دفاعی وکیل ایڈووکیٹ عامر منصب قریشی کی عدم موجودگی کی وجہ سے ایم ایل او ڈاکٹر شیخ اور دو پولیس عہدیداروں کی نجی گواہ کی جانچ نہیں ہو سکی۔

جج نے گواہوں کی شہادتیں اور جانچ پڑتال کے لیے 7 اکتوبر تک معاملہ ملتوی کردیا۔

گواہوں کو ہراساں کرنا

ادھر جج نے 7پولیس اہلکاروں کے ذریعہ استغاثہ کے گواہوں کو مبینہ طور پر ہراساں کرنے کا بھی نوٹس لیا جو موجودہ معاملے میں مبینہ طور پر مفرور ہیں۔

مزید پڑھیں: نقیب اللہ محسود کے والد محمد خان انتقال کرگئے

جج نے ڈی آئی جی شرقی کو ذاتی طور پر حاضر ہونے کی ہدایت کی تاکہ یہ بتایا جائے کہ مفرور ملزمان کو ابھی تک کیوں نہیں پکڑا گیا اور وہ مبینہ طور پر ملزمان کو ہراساں کررہے ہیں تاکہ وہ ملزمان کے خلاف عدالت میں گواہی دینے سے باز رہیں۔

اس سے قبل شکایت کنندہ کے وکیل ایڈووکیٹ صلاح الدین پنہور نے شکایت کی تھی کہ اس کیس میں نامزد 7پولیس اہلکار ابھی بھی مفرور ہیں اور وہ عدالت میں ملزموں کے خلاف اپنے بیانات ریکارڈ کرنے سے روکنے کے لیے استغاثہ کے گواہوں کو ہراساں کررہے ہیں۔

مفرور پولیس عہدیداروں امان اللہ مروت، شیخ محمد شعیب، گڈا حسین، محسن عباس، صداقت حسین شاہ، رانا شمیم ​​اور ریاض کو پہلے ہی مجرم قرار دے دیا گیا ہے اور ان کی گرفتاری کے لیے وارنٹ جاری کردیے گئے ہیں۔

فروری میں عدالت نے نقیب کے بھائی عالم شیر کو اس کیس میں شکایت کنندہ بننے کی اجازت دی تھی کیونکہ دسمبر 2019 میں مقدمے کے ابتدائی شکایت کنندہ اور نقیب کے والد کینسر کا شکار ہو کر انتقال کر گئے تھے۔

استغاثہ کے مطابق انڈر ٹرائل پولیس عہدیداروں نے نقیب اور تین دیگر افراد کو تاوان کے بدلے اغوا کیا اور انہیں ایک ’جعلی مقابلے‘ میں مار ڈالا اور بعد میں انہیں ‘طالبان عسکریت پسندوں’ کا نام دے دیا۔

یہ بھی پڑھیں: راؤ انوار نے جعلی انکاؤنٹر میں نقیب اللہ کے قتل کا حکم دیا، گواہ کا عدالت میں بیان

نوجوان نقیب کے قتل سے سول سوسائٹی کے اراکین نے بڑے پیمانے پر احتجاج شروع کردیا تھا اور اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے ان ہلاکتوں کا از خود نوٹس لیا تھا۔

بعدازاں ٹرائل کورٹ نے نقیب اور تین دیگر متاثرین کو بے گناہ قرار دے دیا تھا اور ان کے خلاف درج مقدمات کو ختم کردیا تھا۔

مارچ 2019 میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کر کے عسکریت پسند قررا دینے کے ساتھ مقتولین سے جعل سازی سے اسلحہ اور دھماکا خیز مواد برآمد کرنے الزام میں راؤ انوار اور دیگر پر فرد جرم عائد کی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں