العزیزیہ ریفرنس: نواز شریف کی طلبی کے اشتہار جاری کرنے کا حکم

اپ ڈیٹ 07 اکتوبر 2020
ایڈیشنل پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف نے قصداً وارنٹ گرفتاری وصول نہیں کیے—فائل فوٹو
ایڈیشنل پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف نے قصداً وارنٹ گرفتاری وصول نہیں کیے—فائل فوٹو

اسلام آباد ہائیکورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں لندن میں زیر علاج مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی طلبی کے لیے اخبارات میں اشتہار جاری کرنے کا حکم دے دیا۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیلوں پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل خصوصی بینچ نے سماعت کی جبکہ پاکستانی ہائی کمیشن لندن کے فرسٹ سیکریٹری دلداد علی ابڑو وڈیو لنک پر عدالت میں پیش ہوئے۔

مزیدپڑھیں: العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری

عدالت نے وڈیو لنک کے ذریعے بیان ریکارڈ کیے اور فرسٹ سیکریٹری دلدار علی ابڑو نے بیان ریکارڈ کرانے سے پہلے سچ بولنے کا حلف لیا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق محمود کھوکھر نے ان سے حلف لیا۔

دلدار علی ابڑو نے بتایا کہ 17 ستمبر کو نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری موصول ہوئے اور اسی روز وارنٹ گرفتاری رائل میل کے ذریعے سابق وزیراعظم کی رہائش گاہ پر بھجوائے گئے۔

انہوں نے عدالت میں بتایا کہ وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کے لیے قونصلر اتاشی راؤ عبدالحنان نواز شریف کی رہائش گاہ گئے تھے اور نواز شریف کے ملازم یعقوب نے وارنٹ گرفتاری وصول کرنے سے انکار کیا۔

دلدار علی ابڑو نے بتایا کہ رائل میل کے ذریعے بھجوائے گئے وارنٹ گرفتاری کی ڈیلوری کی رسیدیں موجود ہیں۔

علاوہ ازیں سماعت کے دوران پاکستانی ہائی کمیشن کے فرسٹ سیکریٹری نے ٹریکنگ نمبر اور آن لائن رسیدیں بھی پیش کردیں۔

یہ بھی پڑھیں: العزیزیہ ریفرنس: نواز شریف نے سرنڈر کی شرط 'ختم' کرنے کی استدعا کردی

اس دوران فارن آفس کے ڈائریکٹر یورپ محمد مبشر خان متعلقہ دستاویزات لے کر عدالت پہنچ گئے اور نواز شریف کے دونوں وارنٹ گرفتاری وصول کرنے کا ریکارڈ عدالت میں پیش کردیا۔

ڈائریکٹر یورپ محمد مبشر نے کہا کہ رجسٹر پر اندراج کے بعد کمپیوٹر پر بھی اس کی انٹری کی جاتی ہے جبکہ وزارت خارجہ امور نے برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کو ڈپلومیٹک بیگ کے ذریعے وارنٹ بھجوائے تھے۔

جس پر جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ اب بتائیں کہ آگے کیا ہو گا؟

ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب جہانزیب بھروانہ نے بتایا کہ اگلا مرحلہ نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کا ہے۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ اشتہاری قرار دینے کے لیے کتنے اخبارات میں اشتہار شائع کرانا ضروری ہے؟ اور اگر اشتہار جاری کرنے ہیں تو اس صورت میں اخراجات کون اٹھائے گا؟

نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ اشتہارات کے اخراجات ریاست ہی اٹھائے گی۔

مزیدپڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ کا نواز شریف کو 10ستمبر سے قبل 'سرنڈر' کرنے کا حکم

ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے کہا کہ جنگ اور دی نیوز اخبار لندن سے بھی شائع ہوتے ہیں۔

جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ اشتہار کے بعد کتنے دن کا وقت ہوتا ہے؟

ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب نے بتایا کہ اشتہار کی اشاعت کے بعد 30 دن کا وقت دیا جائے گا۔

عدالت نے ڈان اور جنگ اخبار میں نواز شریف کی طلبی کے اشتہارات جاری کرنے کا حکم دیتے ہوئے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو اشتہارات کی رقم 2 روز میں جمع کرانے کی ہدایت کردی۔

دوران سماعت قومی احتساب بیورو (نیب) کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف کے وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کے عمل میں شریک 3 افراد نے بیانات ریکارڈ کرادیے ہیں۔

ایڈیشنل پراسیکیوٹر جہانزیب بھروانہ نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں کہا کہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف نے قصداً وارنٹ گرفتاری وصول نہیں کیے۔

دوران سماعت ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی نے عدالت عالیہ میں کہا کہ دستاویزات کی روشنی میں واضح ہے کہ نواز شریف جان بوجھ کر مفرور ہیں۔

انہوں نے عدالت سے نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کی استدعا کی۔

مزیدپڑھیں: عدالت نے العزیزیہ ریفرنس میں سزاؤں کے خلاف نواز شریف کی درخواستیں نمٹا دیں

واضح رہے کہ 15 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف دائر اپیلوں کی سماعت سے سابق وزیراعظم نواز شریف کی حاضری سے استثنی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے تھے۔

اس سے قبل 2 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ہی العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کے خلاف درخواست پر نواز شریف کو 10 ستمبر کو اگلی سماعت سے قبل سرنڈر کرنے حکم دیا تھا بصورت دیگر کے ان کے خلاف قانون کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

نواز شریف، اہلخانہ کیخلاف ریفرنسز کا پس منظر

خیال رہے کہ العزیزیہ، فلیگ شپ اور ایوین فیلڈ تینوں ریفرنسز 7 لاکھ 85 ہزار آفشور کمپنیوں سے متعلق پاناما پیپرز لیکس کا حصہ ہیں جس پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، جماعت اسلامی اور وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدالت عظمٰی نے نواز شریف کو بحیثیت وزیراعظم نااہل قرار دیا تھا اور نیب کو شریف خاندان کے خلاف احتساب عدالت میں 3 ریفرنس اور سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف ایک ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت کی تھی۔

جس پر 6 جولائی 2018 کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن(ر) صفدر کو ایون فیلڈ ویفرنس میں اس وقت سزا سنادی تھی جب وہ برطانیہ میں کلثوم نواز کی تیمارداری کررہے تھے۔

مزید پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس: شریف خاندان کی سزا کے خلاف اپیلیں سماعت کیلئے مقرر

سزا کے بعد شریف خاندان کے اراکین پاکستان آئے جہاں انہیں قید کردیا گیا بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی سزا معطل کر کے ضمانت پر رہائی دی۔

دوسری جانب نواز شریف کو احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے 24 دسمبر 2018 کو العزیزیہ ریفرنس میں بھی سزا سنادی تھی، بعدازاں ایک خفیہ طور پر ریکارڈ کی گئی ویڈیو میں جج نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے نواز شریف کو دباؤ پر سزا سنائی،جس پر جج کو ان کے غلط فعل پر عہدے سے فارغ کردیا گیا تھا۔

گزشتہ برس اکتوبر میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کو 8 ہفتوں کے طبی بنیادوں پر ضمانت دی تھی اور اس میں توسیع کے لیے حکومت پنجاب سے رجوع کرنے کی ہدایت کی تھی تاہم صوبائی حکومت نے ان کی ضمانت کی درخواست مسترد کردی۔

تبصرے (0) بند ہیں