قابل اعتراض ٹوئٹس: اسلام آباد ہائی کورٹ نے صحافی کو گرفتار کرنے سے روک دیا

09 اکتوبر 2020
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایف آئی اے کو صحافی کی گرفتاری سے روک دیا— فائل فوٹو: اے ایف پی
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایف آئی اے کو صحافی کی گرفتاری سے روک دیا— فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو مبینہ طور پر قابل اعتراض ٹوئٹس پر صحافی کی گرفتاری سے روک دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے انکوائری آفیسر کو صحافی رانا محمد ارشد کے خلاف ریکارڈ کے ساتھ 12 اکتوبر کو طلب کیا۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ نے صحافی کے خلاف توہین عدالت کی درخواست خارج کردی

جسٹس اطہر من اللہ، صحافی کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کررہے تھے۔

یہ اسلام آباد کا پہلا کیس ہے جس میں صحافیوں کے دفاع کے لیے پاکستان بار کونسل کی تشکیل کردہ ایک قانونی کمیٹی نے درخواست دائر کی ہے۔

محمد ساجد تنولی، عثمان وڑائچ اور بابر حیات سمور پر مشتمل اور صحافی کی نمائندگی کرنے والے وکلا کا پینل عدالت میں پیش ہوا۔

وکیل نے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزار جسمانی طور پر معذور اور صحافی کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ نے معاونین خصوصی کی دوہری شہریت کے خلاف درخواست مسترد کردی

انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ سوشل میڈیا پر درخواست گزار کی رائے اور اظہار خیال کی وجہ سے انہیں ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے ذریعے ہراساں کیا جارہا ہے۔

درخواست گزار کے ایک وکیل کے مطابق ایف آئی اے نے درخواست گزار کو ایک ناقابل نوٹس پر کارروائی کی ہے، انہوں نے اس مبہم مواد کی وجہ سے نوٹس کو غیر موزوں قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ درخواست گزار کو ایف آئی اے نے طلب کیا تھا اور بعد میں اس کے گھر پر ایجنسی کے عہدیداروں نے چھاپہ مارا تھا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ 'درخواست گزار کا پیشہ ، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 1973 کے آئین کے آرٹیکل 19 اور 19-A کے تحت بنیادی حقوق کی ضمانت فراہم کرتا ہے اور ایف آئی اے نے اس معاملے میں اب تک جو طریقہ اپنایا ہے وہ بادی االنظر میں خاص طور پر الیکٹرانک جرائم ایکٹ 2016 کی روک تھام کے تحت اختیارات کے غلط استعمال عوامی اہمیت کے کئی سوالات کو جنم دیتا ہے'۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ کے باہر سے صحافی گرفتار

عدالت نے رجسٹرار آفس کو ایف آئی اے حکام کو نوٹس جاری کرنے کی ہدایت کردی۔

انہوں نے کہا کہ جس افسر کو کیس کی انکوائری سونپ دی گئی ہے، اسے ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اگلی تاریخ پر پیش ہو اور اس کی وضاحت کرے کہ قانون کے کس اختیار کے تحت غیر موزوں نوٹس جاری کیا گیا تھا جس کے بعد درخواست گزار کے گھر پر چھاپہ مارا گیا، افسر یہ بھی بتائے کہ درخواست گزار کی جانب سے مبینہ کمیشن اور غلطی کو غیر موزوں نوٹس میں کیوں ظاہر نہیں کیا گیا۔

عدالت نے اس درخواست کو باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کیا اور ایف آئی اے حکام کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ہدایت کی کہ درخواست گزار کے خلاف کوئی منفی کارروائی نہیں کی جائے گی۔

اس نے سماعت 12 اکتوبر تک ملتوی کردی۔

یہ بھی پڑھیں: 'پاک فوج کی تضحیک' کا الزام، انگریزی اخبار کے سینئر صحافی گرفتار

ادھر سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے صحافی مطیع اللہ جان کے اغوا کی تحقیقات سے متعلق سی سی ٹی وی فوٹیج فراہم کرنے میں تاخیر پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

فرحت اللہ بابر نے نشاندہی کی کہ متعلقہ قانون کے تحت درخواست دائر کرنے کے 10 دن کے اندر انہیں سی سی ٹی وی فوٹیج مہیا کی جانے والی تھی تاہم درخواست داخل کیے ہوئے کئی ہفتے گزر جانے کے باوجود وزارت داخلہ نے ان سے فوٹیج شیئر نہیں کی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں