کیا کراچی کے ساحل سے متصل جزائر ترقی کے لیے قابلِ عمل ہیں؟

اپ ڈیٹ 12 اکتوبر 2020
یہ جزائر کراچی کے ساحل سے متصل ہیں—فائل فوٹو: ڈان
یہ جزائر کراچی کے ساحل سے متصل ہیں—فائل فوٹو: ڈان

کراچی: وفاقی حکومت کی جانب سے حال ہی میں صدارتی آرڈینینس کے ذریعے تحویل میں لیے گئے جڑواں جزائر بنڈل اور بڈو کورنگی کریک کے قریب 10 ہزار ایکڑ سے زائد کے رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ جزائر گزشتہ 2 دہائیوں میں دو مرتبہ ریئل اسٹیٹ ڈیولپرز کے حملے سے بچ چکے ہیں، پہلی بار ان پر 2006 اور دوسری بار 2013 میں حملہ کیا گیا تھا، یہ ایک بار پھر اس وقت نظروں میں آئے جب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی وفاقی حکومت نے یکطرفہ طور پر ان کا کنٹرول سندھ حکومت سے حاصل کرلیا، جس کے بعد حکومت سندھ نے وفاق کے اس اقدام کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف سخت مزاحمت کا عہد کیا۔

واضح رہے کہ جہاں یہ جزائر موجود ہیں وہاں کے ماحول کا جائزہ لینے کے حوالے سے حال ہی میں کوئی تحقیق نہیں کی گئی۔

ورلڈ وائڈ فار نیچر پاکستان (ڈبلیو ڈبلیو ایف - پی) کے 2008 میں کیے جانے والے سروے کے مطابق یہاں مچھلیوں کی 96، پرندوں کی 54 اور سمندری ڈولفن اور کچھووں کی 3 اقسام (اسپیسیز) موجود ہیں جبکہ 3 ہزار 349 ایکڑ رقبے پر مینگروو پھیلے ہوئے ہیں۔

مزید پڑھیں: سندھ حکومت نے جزائر خود وفاق کے حوالے کیے تھے، علی زیدی

ڈبلیو ڈبلیو ایف–پی کے علاقائی ڈائریکٹر طاہر رشید نے کہا کہ بڑھتی ہوئی آلودگی کے دباؤ سے اس جگہ کا ماحولیاتی نظام پہلے ہی بہت خراب ہے جو کسی (کنکریٹ) تعمیر کی وجہ سے شدت اختیار کرجائے گا، ہمارے پاس اس خطے کا ماحولیاتی آڈٹ ہونا چاہیے تاکہ اس کے تحفظ کے لیے حکمت عملی وضع کی جاسکے تاہم یہ ماحولیاتی سیاحت کا بالکل متحمل نہیں ہے۔

انہوں نے کنوینشن آن بائیولوجیکل ڈائیورسٹی کے آرٹیکل 8 (اے) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اس کا دستخط کنندہ ہے اور یہ ضروری ہے کہ وہ مقامی لوگوں کے معاشرتی، ثقافتی مفادات کا تحفظ اور احترام کرے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایسکپورٹ پراسیسنگ زون سمیت کراچی کے صنعتی علاقوں سے فضلے کے بہاؤ کی وجہ سے کورنگی کریک سب سے زیادہ متاثر ہونے والا آبی ذخیرہ (واٹر باڈیز) میں سے ایک ہے جبکہ بھینس کالونی سے مسلسل گندے پانی کے بہاؤ نے بھی آلودگی میں اضافہ کیا ہے۔

’ممنوعہ علاقے‘

حال ہی میں ڈان کی ٹیم نے مقامی مچھیروں کے ہمراہ جزائر کا دورہ کیا، جیسے ہی ہماری کشتی جیٹی سے دور کھینچی گئی تو بدبودار ہوا کی حدت کم ہونے لگی، کچھ سمندری پرندے کوؤں کے درمیان اڑتے نظر آئے، بڑے علاقے پر پھیلے مینگروو کے جنگلات اور مڈ فلٹس دکھائی دیے جبکہ پانی کا رنگ بھی بدلا جو اس کے اصل حالت میں موجود ہونے کی نشاندہی کررہا تھا۔

مقامی ماہی گیر شفیع نے بتایا کہ ’یہ زرخیز چینل ہزاروں ماہی گیروں کے معاش کا ذریعہ ہے اور یہ ہمارے ماہی گیری کے راستوں کے طور پر کام کرتا ہے جبکہ ہم ان پر آرام کرکے انہیں اسٹاپ اوور کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ اس علاقے میں واقع ان 16 جیٹیوں میں سے ایک ابراہیم حیدری کی جاموٹ جیٹی پر لکڑی کی کشتی چلاتے ہیں، جہاں سمندر میں خارج ہونے سے قبل شہر کا فضلہ جمع ہوتا ہے۔

مزید یہ کہ تقریباً آدھے گھنٹے میں ہم جزیرہ بڈو پر پہنچے جسے مقامی لوگوں کی زبان میں ڈِنگی کہا جاتا ہے، جہاں کتوں کے ایک جتھے نے ٹیم کا استقبال کیا گیا، جنہیں کبھی کبھی ماہی گیروں کی جانب سے خوراک دی جاتی ہے۔

وہاں زمین کے ایک حصے سے دوسرا کنارا کیچڑ کے ساتھ جنگلی پودوں اور گھاس سے ڈھکا ہوا دیکھا جاسکتا تھا جبکہ حال ہی میں تعمیر کیا جانے والا کنکریٹ کا واچ ٹاور بھی نمایاں تھا۔

ادھر پاکستان فشرفوک فورم (پی ایف ایف) کی نمائندگی کرنے والے مقامی کارکن کمال شاہ نے بتایا کہ ’یہ مخصوص علاقہ اب ماہی گیروں کے لیے ممنوعہ ہے کیونکہ وہاں موجود اسٹیشن گارڈز انہیں اس پانی سے گزرنے نہیں دیتے‘۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ حکومت نے جزائر سے متعلق وفاقی حکومت کا صدارتی آرڈیننس مسترد کردیا

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں یاد ہے کہ کس طرح کمیونٹی کو کراچی کے ساحل کے ساتھ پہلے گزری کریک اور اس پُھٹا جزیرے سے مچھلیاں پکڑنے سے روکا گیا، جس علاقے میں آج مرینا کلب بنا ہوا ہے۔

انہوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی پابندیوں سے ماہی گیروں کا پہلے ہی دم گھٹ رہا ہے کیونکہ شکار میں کمی نے انہیں کم قیمت پر فروخت کرنے، بڑھتے ہوئے روز مرہ اخراجات اور غیرملکی ٹرالرز کے آپریشن پر مجبور کردیا ہے۔

بنڈل جزیرے پر صوفی بزرگ کا عرس

کچھ دیر بعد ٹیم اس سے متصل بنڈل جزیرے کے لیے نکلی اور ایک گھنٹے بعد وہاں پہنچی کیونکہ کشتی کا عملہ سمندری لہروں سے واقف تھا اور اس نے طویل راستہ اختیار کیا تاکہ کشتی گہرے پانی میں پھنس نہ جائے۔

ہمیں ساحل تک پہنچنے کے لیے کمر تک گہرے پانی میں چھلانگ لگانا پڑی، جس میں مینگروو کے درخت کے کافی ثبوت ملے جہاں وہ کبھی موجود ہوا کرتے تھے، کچھ دور 3 خالی جھونپڑیاں دکھائی دیں جنہیں دیکھ کر یہ معلوم ہورہا تھا کہ وہ مچھیروں کے عارضی آرام کے لے بنائی گئی ہیں۔

مزید یہ کہ بہت احتیاط سے چھوٹی پہاڑیوں پر چلتے ہوئے ہم کچھ دیر بعد ایک 11 قبروں کے مزار کے سامنے موجود تھے جہاں 2 چھوٹی قبریں تھیں جو شاید بچوں کی تھی۔

مزید پڑھیں: وفاق کے سندھ کے جزائر کا انتظام سنبھالنے کے اقدام پر تنقید

پاکستان فشر فورم کے مقامی کارکن کمال شاہ نے کہا کہ ’یہ جگہ برسوں سے حضرت یوسف شاہ کے مزار کے نام سے مشہور ہے، آنے والے دنوں میں یہ جگہ عرس کے موقع پر ماہی گیروں کی بڑی تعداد کی آمد کے باعث پھر سے بحال ہوجائے گی‘۔

اسی دوران جہاں تک نظر گئی وہاں زمین، گھاس اور جھاڑیوں سے ڈھکی ہوئی تھی اور ادھر تیز ہواؤں کے چلنے کی آواز کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔

قدرتی وسائل کے سینئر محافظ جہانگیر درانی نے کہا کہ یہ جزیرے اس مٹی کی وجہ سے بنے جو صاف پانی سمندر میں لاتا ہے، یہ قدرتی اثاثہ ہیں اور انہیں محفوظ کیا جانا چاہیے، یہ بڑے کٹاؤ اور اور انحطاط کا سامنا کررہا ہے کیونکہ کوٹری پر میٹھے پانی کا بہاؤ کئی برسوں سے بند ہوچکا ہے جبکہ مینگروو کے ختم ہوتے جنگلات اور آلودگی میں اضافے نے اس تباہی میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔

ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ جزائر ترقی کے لیے قابل عمل نہیں ہیں۔


یہ خبر 11 اکتوبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں