موٹروے ریپ کیس کی کوریج پر پابندی کا فیصلہ لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج

اپ ڈیٹ 12 اکتوبر 2020
پیمرا موٹروے ریپ کیس کی کوریج پر پابندی لگا دی تھی— فائل فوٹو: ڈان
پیمرا موٹروے ریپ کیس کی کوریج پر پابندی لگا دی تھی— فائل فوٹو: ڈان

پیمرا کی جانب سے موٹروے ریپ کیس کی کوریج پر پابندی کا حکم لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا گیا ہے۔

ایڈووکیٹ سلمان خان نیازی نے لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی جس میں مؤقف اپنایا گیا کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت کے حکم پر پیمرا نے موٹروے ریپ کیس کی کوریج پر پابندی لگا دی ہے۔

مزید پڑھیں: پیمرا نے ٹی وی چینلز کو موٹروے ریپ سے متعلق خبریں نشر کرنے سے روک دیا

درخواست میں کہا گیا کہ میڈیا کوریج پر پابندی آئین و قانون کی خلاف ورزی ہے لہٰذا لاہور ہائی کورٹ انسداد دہشت گردی اور پیمرا کا حکم کالعدم قرار دے۔

انہوں نے مؤقف اپنایا کہ آئین کے آرٹیکل 19 اور 19 اے کی روشنی میں پیر کے حکم کو غیر قانونی، غیرمؤثر، غیرضروری قرار دیا جائے اور یہ حقائق پر مبنی نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب یہ درخواست زیر التوا ہے اس وقت تک سابقہ حکم کو منسوخ کیا جائے۔

لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس نے درخواست کو سماعت کے لیے مقرر کر دیا جس کی سماعت چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس قاسم خان کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کرے گا۔

پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے پولیس کی درخواست پر ٹرائل کورٹ کی جانب سے جاری کردہ حکم کی روشنی میں تمام ٹیلی ویژن (ٹی وی) چینلز کو سیالکوٹ موٹروے گینگ ریپ کیس سے متعلق خبریں نشر کرنے سے روک دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: موٹروے پر مدد کی متلاشی خاتون کا 'ڈاکوؤں' نے 'گینگ ریپ' کردیا

خیال رہے کہ تفتیشی افسر ذوالقرنین چیمہ کی جانب سے انسداد دہشت گردی عدالت میں درخواست دائر کی گئی تھی جس میں مذکورہ واقعے کی میڈیا کوریج پر پابندی کا کہا گیا تھا۔

انہوں نے مؤقف اپنایا تھا کہ یہ واقعہ ایک گھناؤنا جرم تھا اور میڈیا مذکورہ کیس میں غیرمحتاط کوریج میں ملوث رہا، ساتھ ہی انہوں نے دعویٰ کیا کہ میڈیا رپورٹنگ پولیس کی جانب سے اب تک حاصل کیے گئے ثبوت کو نقصان پہنچائے گی اور اسے ختم کردے گی۔

ذوالفقار چیمہ کا عدالت میں مزید کہنا تھا کہ واقعے کی میڈیا کوریج مرکزی ملزم کی گرفتاری میں مشکلات پیدا کر رہی ہے۔

علاوہ ازیں ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل وقار عابد بھٹی نے تفتیشی افسر کے مؤقف کی حمایت کی اور پنجاب وٹنیس پروٹیکشن ایکٹ 2018 کے سیکشن 13 (2) پر انحصار کیا۔

مذکورہ سیکشن بیان کرتا ہے کہ اگر عدالت اس سے مطمئن ہو کہ متعلقہ شخص کے ثبوت کے معیار کو نقصان پہنچے گا تو دہشتگردی یا جنسی جرائم سے جڑے شخص کی شناخت یا اس کے کنبہ کے افراد کی شناخت کی پرنٹ، الیکٹرانک یا دیگر میڈیا میں رپورٹنگ ممنوع ہو گی۔

مزید پڑھیں: موٹروے واقعہ: حکومت ہوش کے ناخن لے اور پولیس میں سیاسی مداخلت روکے، چیف جسٹس

اپنے فیصلے میں جج ارشد حسین بھٹہ نے تفتیشی افسر کے اعتراض کو تسلیم کیا اور یہ مشاہدہ کیا کہ یہ سیکس سے متعلق جرم تھا اور میڈیا کوریج سے یقیناً متاثرہ فرد اور اس کے خاندان کی بدنامی ہوگی۔

جج کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ ملزمان میں سے ایک کو شناختی پریڈ کے لیے جیل بھی منتقل کیا گیا تھا اور اگر کیس کی میڈیا کوریج کو نہ روکا گیا تو یہ استغاثہ کی جانب سے جمع کیے گئے مواد کی شہادت کی حیثیت کو کم کردے گا۔

اپنے فیصلے میں جج نے لکھا کہ 'لہٰذا چیئرمین پیمرا کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ 9 ستمبر 2020 کو تعزیرات پاکستان کی دفعات 392، 376 (2)، 427، 34 اور انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 7 کے تحت تھانہ گجرپورہ لاہور میں درج ایف آئی آر نمبر 2020/ 1369 کیس کی کوریج کو فوری طور پر الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر روکیں'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں