پارلیمانی کمیٹی نے نیپرا کے قوانین میں مجوزہ تبدیلیوں پر تحفظات کا اظہار کردیا

اپ ڈیٹ 13 اکتوبر 2020
کمیٹی نے ہدایت کی کہ عوام پرکوئی نیا سرچارج عائد نہیں کیا جانا چاہیے — فائل فوٹو:اے پی پی
کمیٹی نے ہدایت کی کہ عوام پرکوئی نیا سرچارج عائد نہیں کیا جانا چاہیے — فائل فوٹو:اے پی پی

اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی، پاور ڈویژن نے نیپرا ایکٹ میں تجویز کردہ ترامیم پر شدید تحفظات کا اظہار کردیا۔

ان کے مطابق نئی ترامیم بجلی کے نرخوں میں سرچارجرز لگانے کا مبہم طریقہ کار پیش کرتی ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چودھری سالک حسین کی سربراہی میں کمیٹی نے ’جنریشن، ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن آف الیکٹرک پاور (ترمیمی) بل 2020‘ کے بارے میں تبادلہ خیال کیا جسے عام طور پر نیپرا ایکٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

کمیٹی نے یہ بھی نوٹ کیا کہ مختلف سرچارجز لگانے اور سرچارجز کے ذریعے پیدا شدہ فنڈز کے استعمال کے لیے مبہم طریقہ کار وضع کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: قوانین کی تشریح پر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی، وزارت ٹیکنالوجی میں اختلاف

کمیٹی نے ہدایت کی کہ عوام پر کوئی نیا سرچارج عائد نہیں کیا جانا چاہیے اور اگر یہ کرنا ہے تو اس کے لیے کمیٹی اور عوام کے سامنے کوئی معقول جواز پیش کیا جانا چاہیے۔

کمیٹی کے چیئرمین نے کہا کہ صارفین کا کیا قصور ہے کہ ان پر سرچارج وصول کیا جارہا ہے ’بجلی کے بلوں پر سرچارجز لینے کی اجازت نہیں دیں گے‘۔

وزیر توانائی نے کہا کہ یکساں ٹیرف کو یقینی بنانے کے لیے سرچارجز ناگزیر ہیں جس سے ڈسکوز (تقسیم کار کمپنیوں) کے مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی۔

بعد ازاں کمیٹی ممبران کو بریفنگ بھیجنے کی ہدایت دیتے ہوئے بل کو آئندہ اجلاس تک کے لیے مؤخر کردیا گیا۔

پاور ڈویژن کے عہدیداروں نے قرض دینے والی ایجنسیز کے ساتھ مختلف معاہدوں کے تحت ’جنریشن، ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن آف الیکٹرک پاور (ترمیمی) بل 2020‘ میں ترمیم کے لیے ٹائم لائن طلب کی۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کا میڈیا کو ’صنعت‘ کا درجہ دینے پر زور

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رکن شازیہ مری نے کہا کہ نیپرا ترمیمی بل کے لیے حکومت کو باہر سے کوئی ڈیڈ لائن مل سکتی ہے لیکن ’ہمارے پاس ڈیڈ لائن صرف عوام کے ساتھ ہے‘۔

ہیسکو/ڈسکو کی کارکردگی کے معاملے پر وزیر توانائی عمر ایوب اور شازیہ مری کے درمیان گرما گرمی بھی دیکھی گئی۔

عمر ایوب نے دعوٰی کیا کہ سندھ حکومت نے ہیسکو علاقوں سے پانی نکالنے میں مدد نہیں کی ہے۔

انہوں نے الزام لگایا کہ سندھ میں پانی نکالنے کے بجائے فنڈز کا ناجائز استعمال کیا گیا۔

اس کے جواب میں شازیہ مری نے کہا کہ سندھ پر الزام لگانے سے ہیسکو ٹھیک نہیں ہوگا۔

میر خان محمد جمالی نے کہا کہ بلوچستان کے ساتھ ناانصافی کی جارہی ہے کیونکہ دوسرے صوبوں کے افسران کو صوبے کے کوٹے پر کیسکو میں بھرتی کیا جارہا ہے۔

وزارت کو ڈسکو میں خالی آسامیوں کو پُر کرنے کے دوران اقلیتوں اور معذور افراد کے صوبائی کوٹے کے تقاضوں پر سختی سے عمل کرنے کو بھی کہا گیا۔

وزارت قائمہ کمیٹی کو آئندہ اجلاسوں میں جنریشن اینڈ ٹرانسمیشن، ڈسٹری بیوشن اور میرٹ آرڈر اور سرکلر ڈیبٹ منیجمنٹ پلان کے بارے میں بریفنگ دے گی۔

وزیر توانائی نے کمیٹی کو بتایا کہ پیسکو، ہیسکو، سیپکو اور کیسکو سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے ڈسکوز ہیں۔

اجلاس میں رکن قومی اسمبلی لال چند کی کنوینرشپ کے تحت کراچی الیکٹرک (کے ای) اور سندھ کے مختلف ڈسکوز کے حوالے سے ممبران اسمبلی کو درپیش مسائل کے حل کے لیے اقدامات پر تبادلہ خیال اور سفارشات کے لیے ایک ذیلی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی۔

تبصرے (0) بند ہیں