ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم اتنے ناسمجھ کیوں ہیں، پھر سوچتے ہیں اگر سمجھ ہوتی تو سمجھ نہ چکے ہوتے کہ ناسمجھ کیوں ہیں، پھر خیال آتا ہے سمجھ میں آجاتا کہ ناسمجھ کیوں ہیں تو اس کا مطلب ہوتا ہم ناسمجھ نہیں ہیں، لیکن ہم سمجھ دار ہیں تو ہم بہت سی باتیں سمجھ کیوں نہیں پاتے؟

یعنی ہم ناسمجھ ہیں، لیکن ناسمجھ ہیں تو یہ کیسے سمجھ میں آگیا کہ ہم ناسمجھ ہیں۔ اس سے پہلے کہ آپ سر پکڑ کر کہیں ‘تمہیں خدا سمجھے’ ہم اصل بات پر آجاتے ہیں۔

بھئی مسئلہ یہ ہے کہ ہماری عقل بہت سے مروج الفاظ، جملے اور اصطلاحات سمجھنے سے قاصر رہتی ہے۔ سوچا صلاح عام لی جائے۔ سو آپ ہماری یہ الجھی ہوئی گتھیاں سلجھادیں اللہ بھلا کرے گا۔

مزید پڑھیے: الفاظ پرانے مفہوم نیا

پہلی الجھن، آوارہ کتے

آخر کتے ہی آوارہ کیوں کہلاتے ہیں؟ کسی سے نہیں سنا آوارہ بلی، آوارہ بھینس، آوارہ گائے، آوارہ بکری ان جانوروں کو آوارہ سمجھا جاتا تو کوئی تو کہتا، ’بھیا دودھ والے! یہ دودھ کسی آوارہ بھینس کا تو نہیں؟ دیکھو ہمیں شریف باحیا بھینس کا دودھ ہی دینا’۔

نہ کبھی یہ سننے کو ملا ‘ارے سنیے! کیا کسی آوارہ گائے کا گوشت لے آئے تھے؟ کباب معدے میں گھومے جارہے ہیں، آئندہ گائے کا چال چلن دیکھ کر گوشت لیجیے گا، قصائی کا چال چلن ٹھیک نہیں لگتا ورنہ میں خود لے آتی’۔

ایسا کوئی فقرہ آپ نے بھی نہیں سنا ہوگا۔

دوسری الجھن، یہ شاہراہ عام نہیں ہے

ہم نے جب بھی کسی سڑک پر بورڈ لگا دیکھا کہ ‘یہ شاہراہ عام نہیں ہے’، تو دیر تک وہیں رک کر غور کرتے رہے کہ اس شاہراہ میں ایسا خاص کیا ہے؟ آخر کوئی خاصیت نظر نہ آئی تو بورڈ پر درج تحریر کے نیچے ‘ایسی کوئی خاص بھی نہیں ہے’ لکھ کر آگے چل دیے۔

تیسری الجھن، یہاں کوڑا پھینکنا منع ہے

یہ تحریر جہاں لکھی دیکھی ہم یہی سمجھے کہ کوڑے کو عزت و احترام دینے کے لیے لکھی گئی ہے اور بین السطور کہا گیا ہے ‘میاں! یہ جو آج کوڑا ہے کل تمہارے کام کا سامان تھا، اس سے وہ سلوک تو نہ کرو جو کام اور وقت نکلنے کے بعد سیاستدان ایک دوسرے سے کرتے ہیں۔ کوڑا لاؤ اور بہت پیار سے بڑے ادب کے ساتھ لِٹا دو، پھیلا دو، بچھا دو’۔ کوڑا پھینکنے کی ممانعت کے عین نیچے کچرے کے ڈھیر دیکھ کر ہم اور کیا سمجھتے؟

چوتھی الجھن، سختی سے نمٹیں گے

جب بھی حکمرانوں اور اعلیٰ حکام کا کوئی ایسا بیان پڑھتے ہیں، جس میں دہشت گردوں، بدامنی و منافرت پھیلانے والوں اور قانون شکن عناصر کے لیے کہا گیا ہو کہ ان سے سختی سے نمٹا جائے گا، تو ہم اس سوچ میں پڑجاتے ہیں کہ اب تک نرمی سے کیوں نمٹ رہے تھے؟ پھر خیال آتا ہے کہ یہ سارے عناصر غیر ہیں اور ہمارے حکمراں اور حکام کیونکہ زیادہ وقت اپنوں یعنی ہم عوام ہی سے نمٹنے میں صرف کرتے ہیں اس لیے نرمی سے نمٹنے کے عادی ہوجاتے ہیں۔

مزید پڑھیے: سیاست کا وقت اور وقت کی سیاست

جب قانون توڑنے والوں سے نمٹنے کا وقت آتا ہے انہیں نرم تازہ روٹی کے باسی ہوکر اکڑنے کی طرح وقت لگتا ہے، اس لیے بتا دیا جاتا ہے کہ دیکھ بھیے! ہم سخت ہونے جارہے ہیں جوں ہی سخت ہوئے فَٹ دَھنی سے تجھ سے نمٹ لیں گے، تب تک کہیں جائیو مَت۔

یہ ایسا ہی ہے جیسے ہمارا جب بھی کسی سے جھگڑا ہوا ہم نے آستینیں چڑھاتے اور منہ پر ہاتھ پھیرتے اس سے کہا، ’کہیں جائیو مت، ابھی آتا ہوں’ پھر دُور سے چُھپ چُھپ کر اسے دیکھتے رہے، جوں ہی وہ گیا ہم آناً فاناً ’جائے جھگڑا’ پر پہنچے اور ‘کہاں گیا بے، ڈر گیا کیا’ کہہ کر جانے والے کو للکارتے رہے۔

پانچویں الجھن، نوٹس لے لیا

ہم پڑھتے اور سنتے رہتے ہیں کہ ‘وزیرِاعظم نے مہنگائی کا نوٹس لے لیا’، ’گورنر نے بجلی کی بندش کا نوٹس لے لیا’، ‘وزیرِ اعلیٰ نے قلتِ آب کا نوٹس لے لیا’۔ اس نوٹس لینے سے اگر کوئی فرق پڑتا تو ہم بھی کچھ اور سمجھتے، لیکن ‘حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی’ کی صورتحال میں ہم اس کے سوا کیا سمجھیں کہ نوٹس لینے کا مطلب اس طرح کے جملے ہیں،

  • ’سُنا ہے مہنگائی ہوگئی ہے، جی ہوگئی ہے۔ اچھا’،
  • ’بھئی کوئی کہہ رہا تھا بجلی کا بحران ہے، جی ہے۔ اوہو،’
  • ’ارے کیا شہر میں قلتِ آب ہے؟ جی سر ہے۔ ہونہہ’۔

کبھی ہمیں ‘نوٹس’ کے لفظ سے مغالطہ ہوتا تھا کہ یہ شہریوں کو پوری سنجیدگی سے بھیجے جانے والے ان نوٹسوں کی طرح ہے جن میں بجلی، پانی یا گیس کا تواتر سے بل نہ جمع کرانے پر ان سہولتوں کا سلسلہ منقطع کردینے کی دھمکی دی جاتی ہے، جس پر عمل کرنے میں ذرا دیر نہیں لگائی جاتی۔ بعد میں یہ غلط فہمی دُور ہوگئی اور پتا چل گیا کہ ‘لیے جانے والے نوٹس’ اور ہیں ‘دیے جانے والے نوٹس’ اور۔

چھٹی الجھن، محب وطن پاکستانی

یہی سنتے اور پڑھتے آئے ہیں کہ فلاں صاحب محب وطن پاکستانی ہیں یا جو صاحب انتقال فرما گئے ہیں وہ محب وطن پاکستانی تھے۔ دل کو یہ خیال ستاتا رہے کہ جب پاکستانیوں میں ایسے خواتین و حضرات ہیں جن کا خاص طور پر محب وطن پاکستانی کی اصطلاح کے ساتھ تذکرہ کرنا ضروری ہے تو غیر محب وطن پاکستانی بھی ہوں گے، لیکن ایسا کچھ سنا تو کبھی نہیں کہ ‘معروف سیاستدان بَنّے میاں چل بسے، وہ غیر محب وطن پاکستانی تھے’۔ تو کیا ایسا ہے کہ محب وطن پاکستانی ہی وفات پاتے ہیں اور غیر محب وطن پاکستانی جیے ہی چلے جاتے ہیں، یہ تو بڑی خطرناک بات ہے، ملک مسلسل نازک دور سے گزر رہا ہے اور غیر محب وطن پاکستانی گزر ہی نہیں رہے۔

مزید پڑھیے: وسیم اختر کے خطوں کا مجموعہ ‘خطوط غائب’

ساتویں الجھن، یہاں پیشاب کرنا منع ہے

کئی بار ایسا ہوا کہ ہم کسی کے گھر گئے، میزبان کے مکان کے قریب دیوار پر لکھا دیکھا ‘یہاں پیشاب کرنا منع ہے’۔ ظالموں نے اس پابندی کی حدود اربع بیان ہی نہیں کی تھیں۔ کافی دیر بیٹھنے کے بعد جب بے چین ہوکر اچانک اٹھے تو میزبان حیران ہوکر بولا ’ارے کیا ہوا کچھ دیر تو رکیے’ ہم نے کہا اجازت دیجیے اب ذرا بھی رکے تو روکے نہ رک سکے گا ‘سیل رواں ہمارا’۔ واپسی میں پورے راستے دل دکھتا رہا کہ پابندی کے باعث ان بے چارے کو جانے کتنی دُور جانا پڑتا ہوگا۔

اب آپ ہی بتائیے کہ ہم نے جس بارے میں جو سمجھا صحیح سمجھا یا نہیں، اگر نہیں سمجھا تو ہمیں سمجھائیے اور ہماری الجھنیں سلجھائیے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں