کوئی سیاستدان جب کہے کہ ‘یہ سیاست کرنے کا وقت نہیں ہے’ تو سمجھ جائیے شاعر اس شعر میں کہنا چاہتا ہے کہ یہی سیاست کرنے کا وقت ہے۔

یہ جملہ اس وقت سیاستدانوں کے لبوں پر آتا ہے جب قوم پر بُرا وقت آجائے، یوں تو ملک کی نازک صورتحال اور قوم کا بُرا وقت کبھی ختم نہیں ہوتے لیکن اصل بُرا وقت وہ ہوتا ہے جب حکمران عوامی فرائض ادا کرتے نظر آئیں، جیسے رونا اور ہاتھ جوڑنا۔

عوام اور حکمرانوں کے رونے میں بھی فرق ہے۔ عوام تکیے میں منہ چھپا کے روتے ہیں اور حکمران رونے کے لیے کیمرے پر تکیہ کرتے ہیں، پھر انہیں ویڈیو میں روتے دیکھ کر عوام سمجھ جاتے ہیں کہ بھیا! اب گھبرانا ہے، اور وہ بھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتے ہیں۔

ملک میں 2 طرح کی ویڈیوز بہت مقبول ہیں ایک جن میں حکمرانوں کے آنسو نظر آتے ہیں دوسری وہ جنہیں دیکھ کر حکمرانوں کے آنسو نکل آتے بلکہ پسینے بھی چھوٹ جاتے ہیں۔

بہرحال اس وقت حکمران اور حزبِ اختلاف میں اتفاق ہے کہ قوم پر بُرا وقت ہے۔ یعنی بقول اہلِ سیاست یہ سیاست کا وقت نہیں۔ چنانچہ ان دنوں سب کچھ ہورہا ہے سوائے سیاست کے۔

سیاست نہ کرنے کی وجہ سے سیاستدانوں کو فرصت ہی فرصت ہے۔ اب ظاہر ہے بُردبار اور سنجیدہ ‘سیاستدان لڑکوں، بالوں اور بچوں کے مشغلوں میں تو مصروفیت تلاش کرنے سے رہے کہ چوہدری شجاعت اور پرویز الہٰی گھر پر آمنے سامنے بیٹھ کر ایک دوسرے کے ہاتھوں سے ہاتھ بجاکر ‘چھم چھم چھم امبریلا لے کر نکلے ہم’ کھیلنے لگیں۔

یا شیخ رشید، شہریار آفریدی، فردوس عاشق اعوان، شیریں مزاری اور فیصل واؤڈا ایک دوسرے کے دامن پکڑے ‘کوووووو....چُھک چُھک چُھک’ کرتے ‘ریل گڈی’ چلا رہے ہوں۔

یا بلاول بھٹو اپنے ساتھیوں کے ساتھ ‘چڑیا اُڑی’ کھیلتے پائے جائیں، یا پھر شہباز شریف اپنے ساتھیوں خاقان عباسی اور راناثنااللہ کے ساتھ چھپم چھائی کھیل کر وقت گزاریں اور مولانا فضل الرحمٰن رسی کود کر دل بہلائیں۔

سو ان دنوں سیاست تعمیری، تنقید اور تصویری امداد کو مشغلہ بنائے ہوئے ہیں۔ یہ تعمیری تنقید ‘تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی’ والی تعمیرات سے تعلق رکھتی ہے۔ یہاں بتاتے چلیں کہ ہمارے ہاں 2 ہی قسم کی تنقیدیں پائی جاتی ہیں، تعمیری تنقید اور ادبی تنقید۔ انہی کے نام پر ساری تخریبی اور تادیبی تنقید کی جاتی ہے۔

جہاں تک تصویری امداد کا تعلق ہے تو دراصل یہ تصویر 2 ضرورت مندوں کے درمیان تھیلے کی ضرورت اور تصویر کی ضرورت پوری کرنے کے موقع کی یادگار تصویر ہوتی ہے، یہ یادگار موقع تھیلا لینے والے کی مشکل اور دینے والے کی عزت میں کمی کا سبب بنتا ہے۔

ویسے ہم اس رائے سے متفق نہیں کہ سیاست کا کوئی وقت ہوتا ہے۔ کامیاب ‘سیاستدان وہی ہے جو ہر وقت مصروفِ سیاست ہو۔ سیاستدانوں سے زیادہ وقت کی قدر کرنا کون جانتا ہے۔ بہت سے ‘سیاستدان تو وقت کی قدر کے ساتھ والدین کو عزت دینے کی طرح وقت کا بھی احترام کرتے ہیں اس لیے انہیں پیار سے ابن الوقت کہا جاتا ہے۔

البتہ جب قوم کے بجائے سیاستدانوں پر بُرا وقت آجائے تو ان کی اوقات جیل میں ملاقات کے اوقات کی طرح محدود ہوجاتی ہے۔ پھر وہ صبر کا میٹھا پھل کھا اور غصہ پی کر سحری کرتے اور چپ کا روزہ رکھ کر افطار کے وقت کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔

جیل اور وقت کی قید سے نکلنے کے لیے وہ کیا کیا جتن نہیں کرتے۔ آخرکار ٹائم زون تبدیل کرنے کے لیے سمندر پار کا راستہ لیتے ہیں۔ جونہی انہیں لگتا یا بتایا جاتا ہے کہ میاں! آپ کے ‘مفادات’ میں سیاست کا وقت ہوا چاہتا ہے، وہ وطن واپسی کے لیے پروازوں کا وقت معلوم کرنے میں مگن ہوجاتے ہیں۔

یوں تو سیاست کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ سارا وقت کا کھیل ہے مگر ہمارے ہاں سارا وقت کھیل میں لگانے والے بھی سیاست میں بازی جیت لیتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ آزمائشوں کی نہیں ‘کھیلن کو مانگے’ چاند جیسی فرمائشوں کی سیاست کرتے اور کُھل کھیلتے ہیں۔

اگرچہ ہمارے نزدیک ہمارے سونے، خواتین کے رونے، پولیس والے اور تاجر کے کمانے، بریکنگ نیوز کے آنے، بیگمات کے میکے جانے، خوش خوراک حضرات کے کھانے، شاعروں کے شعر سنانے، اینکرز کے سیاسی راہنماؤں کو لڑوانے، سرمایہ داروں، سرکاری افسران اور منتخب نمائندوں کے مال بنانے اور شوبز کی دنیا میں شادی رچانے کا کوئی وقت نہیں ہوتا، اسی طرح سیاسی حربے آزمانے کا ہر وقت خصوصاً بُرا وقت ہوتا ہے۔

مگر ہم کیا ہماری رائے کیا، اگر بڑے بڑے ‘سیاستدان کہہ رہے ہیں کہ یہ سیاست کا وقت نہیں ہے تو ہمیں آپ کو انہی کی ماننا ہوگی۔ بس ان سے گزارش ہے کہ جونہی سیاست کا وقت شروع ہو تو اعلان کردیں کہ ‘اے مردِ سیاسی جاگ ذرا اب وقتِ سیاست ہے آیا’۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں