چینی اسکینڈل پر کارکردگی سے نیب سربراہ مطمئن

اپ ڈیٹ 16 اکتوبر 2020
متعلقہ عہدیداروں اور محکموں کو قانون کے مطابق اپنے موقف پر وضاحت دینے کا موقع فراہم کیا جانا چاہیے، چیئرمین نیب — فوٹو:اے پی پی
متعلقہ عہدیداروں اور محکموں کو قانون کے مطابق اپنے موقف پر وضاحت دینے کا موقع فراہم کیا جانا چاہیے، چیئرمین نیب — فوٹو:اے پی پی

اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے چینی اسکینڈل کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (سی آئی ٹی) کی ماہانہ رپورٹ پر اطمینان کا اظہار کیا اور متعلقہ عہدیداروں سے کہا کہ وہ تحقیقات جلد، شفاف اور پیشہ ورانہ انداز میں غیر جانبدارانہ طور پر مکمل کریں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اپنی تحقیقات میں سی آئی ٹی کی پیشرفت کا جائزہ لیتے ہوئے نیب کے سربراہ نے اپنے ممبران سے کہا کہ وہ تمام صوبوں سے شوگر سبسڈی کے بارے میں ڈیٹا اکٹھا کریں اور سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان سے متعلقہ کمپنیوں کی مالی اور آڈٹ رپورٹس بھی قانون کے مطابق حاصل کریں۔

جسٹس جاوید اقبال نے اجلاس کو بتایا کہ متعلقہ عہدیداروں اور محکموں کو قانون کے مطابق اپنے مؤقف پر وضاحت دینے کا موقع فراہم کیا جانا چاہیے۔

اجلاس میں نیب کے ڈپٹی چیئرمین حسین اصغر، پراسیکیوٹر جنرل سید اصغر حیدر، ڈائریکٹر جنرل (آپریشنز) ظاہر شاہ، ڈائریکٹر جنرل (راولپنڈی) عرفان نعیم منگی اور دیگر سینئر افسران نے بھی شرکت کی۔

مزید پڑھیں: مقدمے میں شامل گاڑیوں کا استعمال: ڈی جی نیب لاہور احتساب عدالت میں طلب

چینی اسکینڈل کی تحقیقات کرنے والی سی آئی ٹی میں دو تفتیشی افسران، ایک مالیاتی ماہر، ایک قانونی مشیر، شوگر انڈسٹری کے ماہر، ایک ایڈیشنل ڈائریکٹر اور ایک ڈائریکٹر شامل ہیں اور اس کی سربراہی عرفان نعیم منگی کر رہے ہیں۔

احتساب ادارے کے سربراہ نے اجلاس کو بتایا کہ نیب چینی پر غیر قانونی طور پر سبسڈی وصول کرنے والے تمام افراد کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرے گا۔

انہوں نے سی آئی ٹی ممبران کو ہدایت کی کہ وہ قانون کے مطابق مصدقہ اور مستند دستاویزات حاصل کرنے کے بعد ٹھوس شواہد کی بنیاد پر تفتیش مکمل کریں تاکہ ملزم کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جاسکے اور ’لوٹی ہوئی رقم‘ برآمد کرکے قومی خزانے میں جمع کی جاسکے۔

واضح رہے کہ برآمدگی پر مختلف مل مالکان کو دی جانے والی شوگر سبسڈی کو دیکھنے کے لیے اگست میں سی آئی ٹی تشکیل دی گئی تھی۔

شوگر انکوائری کمیشن کے ذریعے تجویز کردہ ایکشن میٹرکس کے تحت مختلف محکموں کو مختلف زاویوں اور پہلوؤں کے ذریعے اس کی تحقیقات کے لیے مختلف ٹاسک دیے گئے ہیں۔

28 جولائی کو وفاقی حکومت نے متعلقہ حکام کو شوگر ملز کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن شروع کرنے اور اگلے 90 دنوں میں اپنی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔

وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب اور داخلہ مرزا شہزاد اکبر نے عمران خان سے رضامندی حاصل کرنے کے بعد اسٹیٹ بینک آف پاکستان، مسابقتی کمیشن آف پاکستان، پنجاب، خیبرپختونخوا اور سندھ کے چیف سیکریٹریز کو الگ الگ خطوط لکھے اور ان کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کرنے کا مطالبہ کیا۔

ان خطوط کے ساتھ شوگر انکوائری کمیشن کی رپورٹ کو بھی منسلک کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: چیئرمین نیب کی چینی اسکینڈل کی تحقیقات پیشہ ورانہ انداز میں مکمل کرنے کی ہدایت

فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ بے نامی اکاؤنٹس، مشکوک ٹرانزیکشنز اور ٹیکس چوری سے متعلق معاملات کی تحقیقات کے لیے ملک بھر کی تمام شوگر ملز کا آڈٹ کرے۔

شوگر کمیشن کی رپورٹ کے مطابق شوگر ملز کو قصور وار ٹھہرانے کے لیے نیب کو خط ارسال کیا گیا تھا۔

نیب کو شوگر مل مالکان کو قانون کے خلاف دی جانے والی برآمدی سبسڈی کے مختلف پہلوؤں کا تجزیہ کرنے کا بھی کام سونپا گیا تھا۔

فرانزک آڈٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق شوگر ملز کے چھ گروپ اس اسکینڈل میں اصل فائدہ اٹھانے والے ہیں جن میں آر وائے کے جس کے مالک مونس الٰہی اور عمر شہریار ہیں، جے ڈی ڈبلیو گروپ جس کی ملکیت جہانگیر ترین، ان کے بیٹے علی خان ترین اور احمد علی کے پاس ہے، شریف گروپ جس کی ملکیت سلمان شہباز اور حمزہ شہباز کے پاس ہے، ہنزہ گروپ، فاطمہ گروپ، المعیز گروپ اور اومنی گروپ شامل ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں