ایشیا انٹرنیٹ کولیشن کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے نام لکھے گئے بظاہر ایک عام سے خط میں حکومت کی جانب سے آن لائن مواد کی روک تھام کے لیے نئے قواعد پر خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔

ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ ریموول اینڈ بلاکنگ ان لا فل کانٹینٹ رولز 2020 کی منظوری حال ہی کابیہ نے دی۔

حکومتی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ اس دستاویز کو نوٹیفکیشن کے بعد پبلک کیا جائے گا اور ایسا 'اگلے ہفتے' ہوسکتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق پس پردہ حکومت اور اس کولیشن کی نمائندگی کرنے والی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے درمیان ایک بڑی جنگ کا ماحول بنتا نظر آرہا ہے۔

ڈان سے ان پلیٹ فارمز کے عہدیداران نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ مواد کی ریگولیشن کے علاوہ اصل مسئلہ ان پلیٹ فارمز کی جانب سے صارفین کا اکٹھا کیے جانے والے نجی ڈیٹا کی بہت بڑی مقدار کو کنٹرول کرنے کا ہے۔

ٹیکنالوجی کمپنیوں کے اس اتحاد میں دنیا کی چند بڑی کمپنیاں جیسے ایمیزون، ایپل، فیس بک، گوگل اور ٹوئٹر، لنکڈن، سرچ انجنز جیسے یاہو اور متعدد شامل ہیں۔

6 اکتوبر کو لکھے جانے والے خط میں اس بات پر افسوس کیا گیا کہ کسی بھی کمپنی سے نئے قواعد کے مسودے پر مشاورت نہیں کی گئی، حالانکہ حکومت کی جانب سے فروری میں وعدہ کیا گیا تھا کہ اس طرح کی قانون سازی کے لیے سول سوسائٹی یا ٹیکنالوجی کمپنیوں کے متعلقہ شعبوں سے بڑے پیمانے پر مشاورت کی جائے گی۔

ان قواعد کا نوٹیفکیشن پہلے رواں سال جنوری میں شائع کیا گیا تھا جسے بعد میں مختلف حلقوں کے اعتراض پر معطل کردیا گیاا تھا، جس کے بعد جون میں مشاورتی عمل کا آغاز ہوا۔

مگر اکتوبر کے شروع میں یہ خبر سامنے آئی کہ قواعد کا نیا مسودہ کابینہ کمیٹی کے پاس منظوری کے لیے بھیج دیا گیا ہے۔

انٹرنیٹ کولیشن کا کہنا ہے کہ اس سے یا اس کے کسی رکن سے اس حوالے سے مشاورت کی گئی۔

وزیراعظم کے نام اپنے خط میں ایشیا انٹرنیٹ کولیشن نے کہا 'مشاورت نہ ہونا بہت زیادہ خدشات کا باعث بنا اور ہم آپ کی توجہ میں یہ بات لانا چاہتے ہیں کہ متعدد درخواستوں کے باوجود نظرثانی قواعد کا مسودہ مشاورت یا بات چیت کے لیے انڈسٹری اسٹیک ہولڈرز سے شیئر کیا گیا، جس کے نتیجے میں مشاورتی عمل اپنی ساکھ کھو بیٹھا'۔

اس کولیشن کی نمائندگی کرنے والی کمپنیوں کے 2 اعلیٰ عہدیداران نے نام چھپانے کی شرط پر بتایا کہ داؤ پر اس سے زیادہ لگا ہوا ہے جتنا بتایا گیا ہے۔

ان میں سے ایک عہدیدار نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے 'ڈیٹا لوکلائزیشن' یا ان سرورز کی منتقلی کا مطالبہ کیا جارہا ہے جن میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے صارفین کا ڈیٹا محفوظ ہے، اس کے ساتھ ساتھ ان سرورز پر محفوظ ہر قسم کے ڈیٹا تک رسائی کا بھی کہا گیا ہے جبکہ دوسرے عہدیدار نے بتایا کہ اس کے ساتھ صارف کے ڈیٹا اور مواد کی روک تھام کے مطالبات بھی کیے جارہے ہیں۔

ایک سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے عہدیدار نے ڈان کو بتایا 'حکومت کی جانب سے مواد کو ریگولیٹ کرنے کی طاقت، صارفین کے ڈیٹا تک رسائی اور اپنے دائرہ اختیار میں ڈیٹا ٹرانسفر کے مطالبات کیے جارہے ہیں'۔

اس عہدیدار نے بتایا کہ نئے قواعد کو خاموشی سے اور مناسب مشاورت کے منظور کیا جارہا ہے حالانکہ فیس بک کی سی او او شیرل سینڈبرگ کی جانب سے یہ معاملہ وزیراعظم سے حالیہ بات چیت کے دوران بھی اٹھایا گیا۔

ٹیکنالوجی پلیٹ فارمزز اپنے صارفین کا بہت زیادہ ڈیٹا اکٹھا کرتے ہیں جیسے کانٹیکٹ، براؤزنگ ہسٹری، لوکیشن ہسٹری، تصاویر، ویڈیوز، ای میل اور فون کالز کے مکمل ریکارڈ سمیت دیگر۔

یہ ڈیٹا کمپنیوں کی جانب سے قابل پیشگوئی تجزیے کے لیے استعمال ہوتا ہے جس میں پلیٹ فارم آرٹی فیشل انٹیلی جنس کو استعمال کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ صارفین ابھی کیا کررہا ہے یا کیا کرتا رہا ہے، بلکہ صارف مستقبل قریب میں کیا کرنا چاہتا ہے۔

مثال کے طور پر جب آپ کسی سفر کی بکنگ کا ارادہ کرتے ہیں تو متعدد پلیٹ فارمز یہ پیشگوئی کرنے کے قابل ہوتے ہیں آپ کے سفر کا مقصد کیا ہے، کیا یہ نجی دورہ ہے یا اس کی کوئی کاروباری وجہ ہے، سفر کے دوران کس سے ملاقات ہوگی اور کہاں قیام کرسکتے ہیں۔

اس مشق کا مقصد صارف کے لیے ٹارگٹڈ اشتہارات فراہم کرنا ہوتا ہے۔

ایک عہدیدار نے ڈان کو بتایا 'یہ بہت زیادہ نجی ڈیٹا ہوتا ہے'۔

عہدیدار نے حکومت کی جانب سے کیے جانے والے 5 مطالبات کے بارے میں بھی بتایا۔

پہلا مطالبہ پاکستان میں ایک مقامی دفتر کو کھولنے کا ہے، دوسرا تمام پاکستانی صارفین کا ڈیٹا پاکستان کے اندر محفوظ کرنا، تیسرا 'نارمل اور قانونی سے باہر کے تمام ڈیٹا کو شیئر کرنا ہے'۔

چوتھا مطالبہ کسی مواد کو ہٹانے کے حکم پر کمپنی کے وقت کو طے کرنا ہے اور ایک عہدیدار نے اس حوالے سے کہا 'اس سے اووربلاکنگ کا راستہ کھل جائے گا کیونکہ ہمیں بہت زیادہ تعداد میں درخواستیں موصول ہوتی ہیں اور اس کے نتیجے میں قانونی مواد کو بھی ہٹانا پڑے گا'۔

عہدیدار کے مطابق 5 واں مطالبہ پاکستانی صارفین کی سرگرمیوں کی 'حفاظتی نگرانی' ہے، جس کے تحت مخصوص اقسام کا مواد بلاک اور ان سروسز تک خودکار طور پر رسائی فراہم نہ کرنا ہے، چاہے حکومت کی جانب سے مواد کو ہٹانے کی رسمی درخواست نہ بھی کی جائے۔

عہدیدار نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے آنے والے مطالبات 'پاکستان میں ہمارے ہر کام کو خطرے میں ڈال دے گا، اس سے ٹیکنالوجی کمپنیوں سسے پوچھا جائے گا کہ کیا انہوں نے حکومت سے کسی قسم شراکت داری کرلی ہے'۔

عہدیدار کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی کمپنیوں کا اس وقت سب سے بڑا اعتراض 'ان قواعد کو خفیہ طریقے سے منظور کرنے کی کوشش' ہے۔

اس عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ فروری میں جب قواعد منظرعام پر آئے تھے، اس شکل میں وہ 'ناقابل عمل' ہیں اور اس کے نتیجے میں کمپنیوں کی جانب سے پاکستانی صارفین کے لیے سروسز کو روکنے کا فیصلہ ہوسکتا ہے۔

کولیشن کی جانب سے بغیر مشاورتی عمل کے آگے بڑھنے پر خطرات کی جانب نشاندہی کی گئی ہے۔

خط میں کہا گیا کہ یہ قواعد 'اگر نامناسب انداز سے تشکیل دیئے گئے، تو اس سے پاکستان میں کاروباری ماحول کو نقصان پہننے گا اور ٹیکنالوجی کمپنیوں کے لیے یہاں سرمایہ کاری کی کشش متاثر ہوگی'۔

یہ مضمون 15 اکتوبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا

تبصرے (0) بند ہیں