بنگلہ دیش: گینگ ریپ کے جرم میں 5 افراد کو سزائے موت

اپ ڈیٹ 16 اکتوبر 2020
یہ سزا شمالی ضلع تانگیل میں خواتین اور بچوں کے خلاف بدسلوکی کے کیسز سے نمٹنے کے لیے قائم خصوصی عدالت کی جانب سے سنائی گئی۔ فوٹو:رائٹرز
یہ سزا شمالی ضلع تانگیل میں خواتین اور بچوں کے خلاف بدسلوکی کے کیسز سے نمٹنے کے لیے قائم خصوصی عدالت کی جانب سے سنائی گئی۔ فوٹو:رائٹرز

ڈھاکا: بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے 2012 میں ایک 15 سالہ بچی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے جرم میں 5 افراد کو سزائے موت سنادی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ سزا شمالی ضلع تانگیل میں خواتین اور بچوں کے خلاف بدسلوکی کے کیسز سے نمٹنے کے لیے قائم خصوصی عدالت کی جانب سے سنائی گئی۔

پراسیکیوٹر نسیم احمد نے بتایا کہ متاثرہ لڑکی کا دوست اسے ندی کے کنارے لے کر گیا جہاں اس کے دو اور دوستوں نے اسے زیادتی کا نشانہ بنایا اور دو دیگر افراد نے ان کی مدد کی۔

مزید پڑھیں: بنگلہ دیش: حکومت ’ریپ‘ ملزمان کو سزائے موت کا قانون بنانے کیلئے تیار

نسیم احمد کا کہنا تھا کہ ’پانچوں افراد کو قصوروار ٹھہرایا گیا اور انہیں سزائے موت سنائی گئی ہے‘۔

واضح رہے کہ بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت نے رواں ہفتے ریپ کے لیے سزائے موت سنانے کے اعلان کے بعد یہ پہلی مرتبہ کسی کو یہ سزا سنائی گئی ہے۔

گینگ ریپ کے لیے اس سے قبل بھی سزائے موت سنائی جاچکی ہیں تاہم ایک مجرم کی جانب سے ریپ کے جرم میں پہلے صرف عمر قید کی سزا سنائی جاسکتی تھی۔

گزشتہ ہفتے ایک عورت پر حملہ کرنے والے مردوں کے گروہ کی فوٹیج سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد ملک میں مظاہرے دیکھے گئے تھے۔

گزشتہ ماہ سے اس معاملے پر قومی سطح پر غم و غصہ سامنے آیا تھا جب حکمران جماعت کے طلبہ ونگ کے ممبران کو ایک علیحدہ گینگ ریپ کے معاملے میں گرفتار کیا گیا تھا اور ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

دارالحکومت اور دیگر مقامات پر مظاہرین نے سخت سے سخت سزاؤں، تیز ترین مقدمات چلانے اور ان کے مطابق جنسی جرائم کے لیے استثنیٰ کی ثقافت کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت میں ہر 16 منٹ میں ایک خاتون کا ’ریپ‘

خیال رہے کہ بنگلہ دیش میں صرف 3 فیصد ریپ کے کیسز کے مجرمان کو سزا مل پاتی ہے۔

مقامی حقوق کے ایک گروپ عین او سلیش کے مطابق رواں سال کے پہلے 9 ماہ میں گینگ ریپ کے کم از کم 208 کیسز رپورٹ ہوئے۔

بنگلہ دیش نے 2013 سے اب تک اس طرح کے جرم میں 23 افراد کو پھانسی دی ہے جبکہ کم از کم مزید ایک ہزار 718 افراد کی سزائے موت پر عمل درآمد ہونا باقی ہے۔

حقوق کے رضاکاروں نے ریپ کے جرم میں سزائے موت کے اجراء پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے خواتین پر تشدد کم نہیں ہوگا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ ’پھانسیوں سے تشدد برقرار رہتا ہے اور اسے روکا نہیں جاسکتا‘۔

تبصرے (0) بند ہیں