پاکستان کا بین الاقوامی برادری سے ترقی پذیر ممالک کے چوری شدہ اثاثوں کی واپسی پر زور

اپ ڈیٹ 24 اکتوبر 2020
پاکستان کے نمائندے سعد احمد وڑائچ — فوٹو بشکریہ اقوام متحدہ میں مستقدل وفد پاکستان
پاکستان کے نمائندے سعد احمد وڑائچ — فوٹو بشکریہ اقوام متحدہ میں مستقدل وفد پاکستان

پاکستان نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ترقی پذیر ممالک کے چوری شدہ اثاثے ان کو مکمل طور پر واپس کردیے جائیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جمعرات کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ایک بنیادی قانونی فورم کی کمیٹی کے سامنے اپنے ایک بیان میں پاکستان نے ٹیکس سے بچنے کے لیے منافع کی منتقلی جیسے غیر قانونی طریقوں سے نمٹنے کے لیے لازمی فریم ورک کا مطالبہ کیا۔

پاکستان کے نمائندے سعد احمد وڑائچ نے کمیٹی کے سامنے بیان دیتے ہوئے کہا کہ ‘رشوت، ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ سمیت بدعنوانیوں سے چوری شدہ دولت کے اعداد و شمار بہت زیادہ، تقریباً 26 کھرب ڈالر سالانہ ہیں’۔

مزید پڑھیں: عالمی برادری میں پاکستان تنہا نہیں ہے، اقوام متحدہ میں پاکستانی سفیر

اقوام متحدہ کے ایک پینل نے حال ہی میں بتایا تھا کہ ترقی پذیر ممالک کی معیشتوں کو تباہ کرنے والے غیر قانونی مالیاتی بہاؤ کے اوپر حکومتیں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے منافع کی آف شور منتقلی پر سالانہ ٹیکس محصول میں 600 ارب ڈالر تک حاصل کرتی ہیں۔

گزشتہ ماہ تیار ہونے والی اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ سرحد پار منی لانڈرنگ ہر سال کم از کم 16 کھرب ڈالر یا عالمی جی ڈی پی کا 2.7 فیصد ہوتی ہے۔

اقوام متحدہ کے اعلیٰ سطح پینل برائے بین الاقوامی مالیاتی احتساب، شفافیت اور دیانتداری (ایف اے سی ٹی آئی) کو مارچ میں رکن ممالک کو پائیدار ترقی کے حصول میں مدد کے مقصد کے ساتھ تشکیل دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان بھاری اکثریت سے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا دوبارہ رکن منتخب

پینل نے معلوم کیا کہ نجی دولت میں کم از کم 70 کھرب ڈالر جو دنیا کی جی ڈی پی کا 10 فیصد ہے، کو بیرون ممالک آف شور کیا گیا۔

اس نے ٹیکسز، بدعنوانی اور مالی جرائم سے نمٹنے کے لیے عالمی ڈھانچے میں بڑے فرق اور نظامی دشواریوں کی بھی نشاندہی کی۔

اس رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ بین الاقوامی مالیاتی کنٹرول نے تیزی سے ڈیجیٹائزڈ عالمی معیشت کے ساتھ تسلسل برقرار نہیں رکھا ہے اور حکومتیں اس مسئلے کے حل کے بارے میں متفق نہیں ہوسکی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں