پاکستان نیوکلیئر ریگولیٹری اتھارٹی نے چیئرمین کیلئے گھر کی خریداری میں قوانین کو توڑا، اے جی پی

اپ ڈیٹ 25 اکتوبر 2020
آڈیٹر جنرل پاکستان کی رپورٹ میں یہ انکشاف ہوا—فائل فوٹو: اے جی ویب سائٹ
آڈیٹر جنرل پاکستان کی رپورٹ میں یہ انکشاف ہوا—فائل فوٹو: اے جی ویب سائٹ

اسلام آباد: پاکستان نیوکلیئر ریگولیٹری اتھارٹی (پی این آر اے) اپنے قیام یعنی تقریباً 2 دہائیوں سے اپنے قواعد (رولز) نہیں تشکیل دے سکی اور آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) نے نیا انکشاف کیا ہے کہ حال ہی میں اتھارٹی نے خریداری کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چیئرمین پی این آر اے کے لیے ایک گھر خریدا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 2001 میں ایک آرڈیننس کے تحت پی این آر اے کا قیام عمل میں آیا تھا اور اسے ملک میں جوہری تحفظ اور تابکاری کے تحفظ سے متعلق تمام معاملات کو کنٹرول، ریگولیٹ، نگرانی کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔

اس کے علاوہ اسے جوہری تحفظ اور تابکاری سے بچاؤ کے لیے قواعد و ضوابط تیار کرنے، گائیڈ لائنز جاری کرنے اور آئنائزنگ تابکاری سے بڑھتے خطرات کے خلاف زندگی، صحت اور املاک کے تحفظ کے لیے پروگرامز اور پالیسیز تیار کرنے اور ان پر عمل درآمد کا اختیار ہے۔

مزید پڑھیں: سال 2019 میں ایک کھرب 66 ارب روپے سے زائد کی ٹیکس 'چوری' کا انکشاف

پی این آر اے نیشنل کمانڈ اتھارٹی (این سی اے) کے سائے تلے کام کرتی ہے۔

اے جی پی کی رپورٹ برائے مالی سال 20-2019 میں کہا گیا کہ ’ نیشنل کمانڈ اتھارٹی ایکٹ 2010 کے سیکشن 9 (2) کہتا ہے کہ اتھارٹی این سی اے کی سروس میں ملازمین کی خدمت کے شرائط و ضوابط سے متعلق تمام معاملات کو ریگولیٹ کرے گی، جس میں ان کے تقرر، برطرفی، ترقی، تبادلہ، سالمیت کی تشخیص، اعتبار، سیکیورٹی کلیئرنگ اور دیگر متعلقہ معاملات شامل ہیں‘۔

اس میں مزید کہا گیا کہ ایکٹ کا سیکشن 15 کہتا ہے کہ اتھارٹی اس ایکٹ کے مقاصد کی انجام رہی کے لیے قوانین بنا سکتی ہے‘۔

آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا کہ پی این آر اے سے درخواست کی گئی کہ وہ نیشنل کمانڈ اتھارٹی ایکٹ کے تحت بنائے گئے قوائد/ریگولیشنز اور اکاؤنٹنگ طریقہ کار کی نقول فراہم کرے۔

اس میں یہ بھی کہا گیا کہ ریکارڈ کے جائزے کے بعد آڈیٹرز نے مشاہدہ کیا کہ پی این آر اے نے جی پی/سی پی فنڈز، پینشن، ویفلیئر اور سرمایہ کاری سے متعلق قوانین وضع نہیں کیا اور انتظامیہ نے پی این آر اے فنانشل ٹرانزیکشن کے لیے اکاؤنٹنگ میں استعمال ہونے والی تفصیلی پالیسز اور طریقہ کار کی وضاحت کے لیے اکاؤنٹنگ طریقہ کار کو وضع نہیں کیا۔

یہ بھی پڑھیں: آڈیٹر جنرل کا وفاقی وزارتوں میں 270 ارب روپے کی بےضابطگیوں، غبن کا انکشاف

ادھر پی این آر اے انتظامیہ نے آڈٹ اعتراض کے ردعمل میں کہا کہ این سی اے ایکٹ کے مطابق انہیں اس کے سائے میں چلنے والی آرگنائزیشن کے لیے قواعد و ضوابط بنانے کا اختیار ہے، پی این آر اے بھی این سی اے ایکٹ کے تحت چلتی ہے، لہٰذا قوانین بنانا این سی اے کا دائرہ اختیار ہے، انہوں نے مختلف قوانین بنائیں ہیں اور باقی زیر عمل ہیں۔

علاوہ ازیں محکمہ کی اکاؤنٹس کمیٹی نے 14 جنوری کو پی این آر اے کو ہدایت کی تھی کہ وہ قوانین اور اکاؤنٹنگ طریقہ کار کو وضع کرے اور اسے متعلقہ اتھارٹی سے منظور کروائے۔

تاہم آڈیٹرز نے بیان کیا کہ ’رپورٹ کو حتمی شکل دینے تک آڈٹ کو کوئی پیش رفت نظر نہیں آئی‘۔


یہ خبر 24 اکتوبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں