آڈیٹر جنرل پاکستان کا وفاقی وزارتوں میں 270 ارب روپے کی بےضابطگیوں، غبن کا انکشاف

اپ ڈیٹ 29 جون 2020
عوامی فنڈز میں 12 ارب روپے سے زائد کے غبن، سرکاری فنڈز میں 258 ارب روپے کی بے ضابطگیاں پائی گئیں- فائل فوٹو:ا ے ایف پی
عوامی فنڈز میں 12 ارب روپے سے زائد کے غبن، سرکاری فنڈز میں 258 ارب روپے کی بے ضابطگیاں پائی گئیں- فائل فوٹو:ا ے ایف پی

اسلام آباد: آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) نے مختلف وزارتوں میں عوامی فنڈز میں 12 ارب روپے سے زائد کے غبن اور غلط استعمال کا انکشاف کیا ہے جبکہ سرکاری فنڈز میں 258 ارب روپے کی بے ضابطگیاں پائی گئی ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اے جی پی کی رپورٹ مالی سال 19-2018، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے پہلے سال سے متعلق ہے اور اس میں ذمہ داران کے خلاف تحقیقاتی ایجنسیوں کو حوالہ جات سمیت سخت کارروائی کی تجویز دی گئی ہے۔

آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے آڈٹ سال 20-2019 سے متعلق اپنی رپورٹ کو حتمی شکل دی ہے اور وہ آئندہ چند روز میں پارلیمنٹ اور صدر کو پیش کی جائے گی۔

رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آڈٹ ٹیموں کو متعدد اداروں اور اکاؤنٹس کا ریکارڈ نہیں دیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: کورونا کے اخراجات کا آڈٹ ہوگا تو اصل بات سامنے آئے گی، چیف جسٹس

حکومتی وزیر نے آڈٹ رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ماضی کی حکومتوں میں یہ بے ضابطگیاں 1000 ارب روپے سے زائد ہوتی تھیں۔

نجی چینل جیو ٹی وی کے مطابق وزیر برائے صنعت حماد اظہر نے کہا کہ اس تعداد میں 80 فیصد کمی ہوئی ہے اور مزید کہا کہ پی ٹی آئی حکومت کو اسے مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

آڈٹ رپورٹ میں 12 ارب 56 کروڑ 11 لاکھ روپے کے عوامی فنڈز کے غلط استعمال اور غبن اور فرضی ادائیگیوں کے 56 کیسز کی نشاندہی کی گئی۔

اس کے ساتھ ہی 79 ارب 59 کروڑ روپے کی ریکوری سے متعلق 98 اور 17ارب 97 کروڑ روپے کا ریکارڈ پیش نہ ہونے سے متعلق 37 کیسز ہیں۔

اسی طرح آڈٹ میں کمزور مالیاتی انتظام سے متعلق 152 ارب 21 کروڑ روپے کے 35 کیسز کا بھی انکشاف کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ میں پیش کی گئی آڈٹ رپورٹ موجودہ دور کی نہیں، شیخ رشید

آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے ریکارڈ میں شامل کیا ہے کہ آڈٹ ایئر 20-2019 کے آڈٹ پیراز میں ضابطے کی خلاف ورزیوں، داخلی کنٹرول کی کمزوریوں اور بے ضابطگیاں، جنہیں رپورٹنگ کے لیے اہم نہیں سمجھا جاتا تھا، انہیں قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں رپورٹ نہیں کیا گیا تھا۔

ان نتائج کی بنیاد پر آڈٹ نے حکومت کو یہ یقینی بنانے کی تجویز دی ہے کہ پارلیمنٹ کی اجازت اور بجٹ میں شامل کیے بغیر کوئی بھی اخراجات شامل نہ کیے جائیں اور مالی سال کے اختتام سے قبل ضرورت کے تعین اور پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر اضافی گرانٹس جاری نہیں کی جانی چاہئیں۔

آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے پارلیمنٹ کو یہ سفارش بھی کی کہ عوامی رقم کے سنگین غبن کے کیسز تحقیقاتی ایجنسیوں کو بھیجے جائیں اور حکومت کو ہدایت کی جائے کہ جہاں بھی قابل اطلاق ہو سرکاری وصولیوں اور خرچ نہ کی گئی رقوم کو سرکاری خزانے میں جمع کرایا جائے۔

 

تبصرے (0) بند ہیں