ججز کو دھکمیاں دینے کا معاملہ: ملزم افتخارالدین کے خلاف دہشتگردی کی دفعہ ختم

اپ ڈیٹ 28 اکتوبر 2020
چیف جسٹس گلزار احمد کی جانب سے دھمکی آمیز ویڈیو پر ازخود نوٹس لیا گیا تھا— فائل فوٹو: رائٹرز
چیف جسٹس گلزار احمد کی جانب سے دھمکی آمیز ویڈیو پر ازخود نوٹس لیا گیا تھا— فائل فوٹو: رائٹرز

اسلام آباد: انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سپریم کورٹ کے دیگر ججز کو دھمکیاں دینے اور ان کے خلاف نامناسب زبان استعمال کرنے والے راولپنڈی کے مولوی آغا افتخار الدین مرزا کے کیس میں انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) کی دفعہ کو خارج کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دھمکیاں ایک ویڈیو لیکچر میں دی گئی تھیں، جو رواں سال جون میں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔

اس واقعے کے بعد چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کی جانب سے معاملے پر ازخود نوٹس لیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: ججز کےخلاف توہین آمیز ویڈیو پر ملزم افتخارالدین کی معافی مسترد، توہین عدالت کا نوٹس

انسداد دہشت گردی عدالت کے جج شاہ رخ ارجمند نے فیصلہ دیا کہ درخواست میں مولوی افتخار الدین پر لگایا گیا الزام انسداد دہشت گردی ایکٹ کے زمرے میں نہیں آتا لہٰذا عدالت نے کیس کو دوبارہ سیشن کورٹ کو بھیج دیا۔

درخواست گزار مولوی افتخارالدین مرزا کو انسداد دہشت گردی عدالت کی دفعہ 6 کے ساتھ ساتھ برقی جرائم کی روک تھام کے قانون (پیکا) 2016 اور پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی دفعہ 500 کا سامنا کر رہے تھے۔

تاہم انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 6 خارج کیے جانے کے بعد ملزم کو پییکا اور پی پی سی کے تحت ٹرائل کا سامنا کرنا ہوگا۔

پی پی سی کی دفعہ 500 کے مطابق ہتک عزت پر جرمانے کے ساتھ ساتھ 2 سال تک سزا بڑھائی جاسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایف آئی اے نے ججز کو دھمکانے والی ویڈیو کے معاملے پر رپورٹ جمع کروادی

یاد رہے کہ ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران افتخارالدین مرزا نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ جمع کروایا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ 'نجی تقریب میں بات چیت کے دوران (انہوں) نے غیر ارادی طور پر عدلیہ، ججز کے خلاف کچھ الفاظ کہے، (وہ) بہت شرمندہ ہیں اور اپنے الفاظ کے لیے معذرت خواہ ہیں، وہ غیر مشروط معافی مانگتے ہیں اور خود کو عدالت عظمیٰ کے حوالے کرتے ہیں'۔

معاملے کا پس منظر

خیال رہے کہ جسٹس عیسیٰ پر صدارتی ریفرنس کے خلاف دائر آئینی درخواستوں پر عدالت عظمیٰ نے 19 جون کو مختصر فیصلہ جاری کیا تھا جس میں ریفرنس کو کالعدم قرار دے دیا گیا تھا۔

تاہم 24 جون کو سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے پولیس کو ایک درخواست دی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ان کے خاندان کی زندگی خطرے میں ہے کیونکہ انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔

مزید پڑھیں: فائز عیسیٰ کیس: 'کسی نے نہیں کہا جج کا احتساب نہیں ہوسکتا، قانون کے مطابق ایسا ہوسکتا ہے'

جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ نے کہا تھا کہ ایک شخص (افتخارالدین مرزا) نے ویڈیو میں کہا کہ ان کے شوہر کو سرعام گولی ماری جائے، ساتھ ہی انہوں نے اپنی شکایت کے ساتھ دھمکی آمیز ویڈیو پیغام پر مشتمل یو ایس بی بھی جمع کروائی تھی۔

بعد ازاں مذکورہ معاملے پر چیف جسٹس پاکستان نے ازخود نوٹس لیا تھا اور معاملے کی عدالت عظمیٰ میں سماعت ہوئی تھی، جہاں ملزم آغا افتخار الدین مرزا پر فرد جرم عائد کردی گئی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں