نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کی روک تھام کے لیے تیار ہونے والی اولین ویکسینز ممکنہ طور پر مثالی نہیں ہوں گی اور ہر ایک کے لیے کام نہیں کریں گی۔

یہ انتباہ برطانیہ کی ویکسین ٹاسک فورس کی چیئرمین کیٹ بنگھم نے اپنے ایک مقالے میں کیا۔

انہوں نے کہا کہ ادویات کی تاریخ میں کسی بھی ویکسین کے حوالے سے اتنی توقعات وابستہ نہیں تھیں اور اب ویکسینیشن کو ہی وبا کے خاتمے کی واحد حکمت عملی تصور کیا جارہا ہے۔

تاہم اتنی زیادہ توقعات کے حوالے سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ایک ویکسین ممکنہ طور پر ہر ایک کے لیے کارآمد نہیں ہوگی یا بہت زیادہ عرصے تک موثر نہیں ہووگی۔

طبی جریدے لانسیٹ میں شائع مقالے میں انہوں نے لکھا 'ہم یہ نہیں جانتے کہ ہم کوئی ویکسین حاصل بھی سکیں گے یا نہیں، تو ایہ اہم ہے کہ اس خیال اور بہت زیادہ توقع پر مطمئن نہ ہوں'۔

انہوں نے مزید لکھا 'اولین ویکسینز ممکنہ طور پر مثالی نہیں ہوں گی اور ہیں تیار رہنا ہوگا کہ ان سے بیماری کی روک تھام نہ ہو، بلکہ صرف علامات میں کمی آئے، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ ہر ایک کے لیے زیادہ عرصے تک موثر بھی نہ ہو'۔

اس ٹاسک فورس کا قیام برطانوی حکومت کے چیف سائنسی مشیر سر پیٹرک ویلنس کے مشورے پر عمل میں آیا تھا۔

کیٹ بنگھم نے اپنے مقالے میں لکھا کہ ایسی حکمت عملی مرتب کی گئی ہے جس سے برطانیہ کو ایک محفوظ اور ویکسین کی فراہمی کے مواقع بڑھ جائیں گے، مگر یہ بھی خیال رہے کہ ممکنہ طور پر اولین ویکسینز وبا کی روک تھام کے مقصد میں ناکام ہوجائیں گی۔

برطانوی وزیر جارج آئیوسٹکس کا کہنا تھا کہ کیٹ بنگھم کا تجزیہ ممکنہ طور پر درست ہے۔

انہوں نے اسکائی نیوز کو بتایا 'ایک ویکسین کے بارے میں ابھی کہنا قبل از وقت ہوگا کہ وہ تک تیار ہوسکے گی، میں جانتا ہوں کہ ایسی توقعات موجود ہیں کہ سال کے آخر تک کسی قسم کی پیشففت ہوسکتی ہے، مگر اس کی کوئی ضمانت نہیں'۔

خیال رہے کہ دنیا بھر میں 200 سے زائد ویکسینز کی تیاری پر کام ہورہا ہے جن میں سے 44 کلینیکل ٹرائلز سے گزر رہی ہیں۔

ان 44 میں سے 9 ٹرائلز تیسرے مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں، جن میں ہزاروں افراد میں ویکسینز کی افادیت اور محفوظ ہونے کی تصدیق کی جارہی ہے۔

اس سے قبل رواں ماہ کے شروع میں طبی ماہرین نے بھی خیال ظاہر کیا تھا کہ کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے ایک موثر ویکسین کی عام افراد کے لیے دستیابی 2021 کی چوتھی سہ ماہی تک ممکن نہیں۔

یہ بات کینیڈا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی جس میں ویکسین کی تیاری کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین سے رائے لی گئی۔

میک گل یونیورسٹی کی اس سروے نما تحقیق میں ویکسینولوجی کے شعبے کے 28 ماہرین سے رائے لی گئی تھی۔

اس تحقیق کا آغاز جون کے آخر میں ہوا تھا اور اس میں شامل بیشتر ماہرین کا تعلق کینیڈا یا امریکا سے تھا جو اپنے شعبے میں اوسطاً 25 سال سے سرگرم تھے۔

محقق جوناتھن کمیلمین نے بتایا کہ کہ ہمارے سروے میں شامل ماہرین نے ویکسین کی دستیابی کے حوالے سے اپنی پیشگوئیوں میں اس بات کا بہت کم امکان ظاہر کیا کہ کوئی کورونا ویکسین 2021 کے آغاز میں لوگوں کے لیے دستیاب ہوسکتی ہے۔

درحقیقت بیشتر کا تو ماننا تھا کہ اگر اگلے سال موسم گرما تک بھی ویکسین کی دستیابی بہترین منظرنامے کا حصہ ہوگی۔

متعدد ماہرین کا ماننا تھا کہ کسی موثر ویکسین کی دستیابی سے قبل کسی قسم کے خراب آغاز کا سامنا ہوسکتا ہے۔

تحقیق کے مطابق ماہرین کا ماننا تھا کہ اس بات کا ایک تہائی امکان ہے کہ منظوری کے بعد ویکسین کے حوالے حفاظتی وارننگ جاری ہوسکتی ہے، جبکہ 40 فیصد امکان اس بات کا بھی ہے کہ بڑے پیمانے پر ہونے والی پہلی تحقیق میں افادیت کو رپورٹ ہی نہ کیا جائے۔

تحقیق میں یہ بھی بتایا کہ ایک تہائی ماہرین کا ماننا تھا کہ ویکسین کی تیاری میں درج ذیل رکاوٹوں کا سامنا ہوسکتا ہے:

1۔ امریکا اور کینیڈا میں تیار ہونے والی پہلی ویکسین کے بارے میں ایف ڈی اے کی جانب سے وارننگ دی جاسکتی ہے کہ اس کے جان لیوا مضر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں یا

2۔ یہ پہلے بڑے پیمانے پر ٹرائل میں افادیت کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا جائے گا یا منفی نتائج سامنے آئیں گے

محققین کا کہنا تھا کہ ہماری تحقیق نے دریافت کیا کہ ماہرین کورونا وائرس ویکسین کی دستیابی کے دورانیے کے حوالے سے متفق ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ ماہرین کی رائے حکومتوں کے خوش آئند تخمینوں سے مماثلت نہیں رکھتے، مگر یہ اس خیال کی عکاسی کرتے ہیں کہ محققین بہت ماضی کی ویکسینز کے مقابلے میں اس بار بہت تیزی سے اپنا کام مکمل کریں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں