بدلے کی منطق کے مطابق مسلمان لاکھوں فرانسیسی افراد کے قتل کا حق رکھتے ہیں، مہاتیر محمد

30 اکتوبر 2020
مہاتیر محمد نے کہا کہ کسی کو قتل کرنا وہ عمل نہیں ہے جس کی بطور مسلمان میں اجازت دوں گا — فائل فوٹو / اقوام متحدہ یوٹیوب
مہاتیر محمد نے کہا کہ کسی کو قتل کرنا وہ عمل نہیں ہے جس کی بطور مسلمان میں اجازت دوں گا — فائل فوٹو / اقوام متحدہ یوٹیوب

ملائیشیا کے سابق وزیر اعظم مہاتیر محمد کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کے پاس اس بات کا حق ہے کہ وہ ماضی کے ظلم پر طیش میں آئیں اور فرانس کے لاکھوں لوگوں کا قتل کردیں۔

ٹوئٹر کی جانب سے مہاتیر محمد کی اس ٹوئٹ پر فوری ایکشن لیا گیا اور ان کی یہ ٹوئٹ ہٹا دی گئی جبکہ صارفین کی طرف سے اس کی شدید مذمت کی گئی۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ‘رائٹر’ کے مطابق مہاتیر محمد کا یہ تبصرہ طویل بلاگ کا حصہ تھا جو ٹوئٹر پر شیئر کیا گیا۔

مہاتیر محمد نے اپنی پوسٹ کا آغاز یہ کہہ کر کیا کہ بطور مسلمان انہوں نے فرانسیسی ٹیچر سیموئیل پیٹی کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دی تھی، جبکہ آزادی اظہار رائے کو دوسروں کی توہین کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ‘کسی کو قتل کرنا وہ عمل نہیں ہے جس کی بطور مسلمان میں اجازت دوں گا، لیکن چونکہ میں اظہار رائے کی آزادی پر یقین رکھتا ہوں، میں یہ نہیں سمجھتا کہ اس میں دوسروں کی توہین کرنا شامل ہے، آپ کسی کے پاس جاکر اسے صرف اس لیے بھلا بُرا نہیں کہہ سکتے کیونکہ آپ آزادی اظہار رائے پر یقین رکھتے ہیں’۔

مزید پڑھیں: گستاخانہ خاکوں پر فرانسیسی صدر کی حمایت احمقانہ، توہین آمیز حرکت ہے، ایران

مسلم دنیا کے ممتاز رہنما کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کے پاس غصہ ہونے کا حق ہے اور وہ ماضی کے جرائم کا بدلہ چاہتے ہیں۔

سابق ملائیشین وزیر اعظم نے کہا کہ فرانسیسیوں نے اپنی تاریخ میں لاکھوں لوگوں کو قتل کیا ہے جن میں سے بیشتر مسلمان تھے۔

انہوں نے کہا کہ ‘اس لیے مسلمانوں کے پاس اس بات کا حق ہے کہ وہ ماضی کے ظلم پر طیش میں آئیں اور فرانس کے لاکھوں لوگوں کا قتل کردیں، لیکن عام طور پر مسلمانوں نے آنکھ کے بدلے آنکھ کے قانون کا اطلاق نہیں کیا، وہ ایسا نہیں کرتے اور فرانسیسیوں کو بھی نہیں کرنا چاہیے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘کیونکہ آپ نے ایک مشتعل شخص کے عمل کی وجہ سے تمام مسلمانوں اور ان کے مذہب کو مورد الزام ٹھہرایا ہے، تو مسلمانوں کے پاس بھی حق ہے کہ وہ فرانسیسیوں کو سزا دیں’۔

مہاتیر محمد نے فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے فوری طور پر مذہب اسلام اور مسلمانوں پر الزام لگایا۔

فرانس کے اسکول میں گستاخانہ خاکے دکھائے جانے کا دفاع کرنے پر متعدد مسلم اکثریتی ممالک نے ایمانوئیل میکرون سمیت فرانسیسی حکام پر تنقید کی تھی۔

ملائیشیا کے سابق وزیر اعظم نے کہا کہ مسلم اکثریتی ملائیشیا شہریوں کی وجہ سے ایک پرامن اور مستحکم ملک ہے، یہ شہری مختلف نسلوں اور مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں اور جنہیں دوسروں کے حساس معاملات کا ادراک ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ باقی دنیا مغرب کے طور طریقوں کی نقل کرتی ہے لیکن نسلوں اور مذاہب کے درمیان ہماری اپنی اور مختلف اقدار ہیں، جسے ہمیں پائیدار بنانے کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: فرانسیسی صدر نے جان بوجھ کر مسلمانوں کو اشتعال دلایا، وزیراعظم

ان کا کہنا تھا کہ ہم عصر مغربی دنیا میں کوئی اپنے مذہب پر بھی عمل نہیں کرتا، وہ صرف نام کے مسیحی ہیں، یہ ان کا حق ہے لیکن انہیں کسی صورت دوسروں کی اقدار اور مذہب کی بے عزتی نہیں کرنی چاہیے، ان کی تہذیب کی یہ سطح ہونی چاہیے کہ وہ عزت دیں۔

مہاتیر محمد نے خواتین کے حقوق سے متعلق تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ابتدائی طور پر مغرب میں خواتین کے حقوق کی تحریک کا آغاز انتخابات میں ووٹ کا حق دیے جانے سے ہوا، آج ہم ہر وہ چیز مٹا دینا چاہتے ہیں جو مرد اور عورت کے درمیان مختلف ہے۔

انہوں نے کہا کہ مغربی ممالک کو باقی دنیا پر زبردستی اپنی اقدار نافذ نہیں کرنی چاہیے۔

دوسری جانب ٹوئٹر کا کہنا تھا کہ اس پیغام سے تشدد پر اکسانے سے متعلق اس کے قواعد کی خلاف ورزی ہوئی لیکن وہ پرعزم ہے کہ عوام کے مفاد میں پوسٹ موجود رہے گی، تاہم بعد ازاں ایک ٹوئٹ ہٹادی گئی۔

ٹیچر کا قتل اور فرانسیسی صدر کا متنازع بیان

واضح رہے کہ برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز نے رپورٹ کیا تھا کہ رواں ماہ فرانس کے ایک اسکول میں ایک استاد نے آزادی اظہار رائے کے سبق کے دوران متنازع فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو کے 2006 میں شائع کردہ گستاخانہ خاکے دکھائے تھے۔

جس کے چند روز بعد ایک شخص نے مذکورہ استاد کا سر قلم کردیا تھا جسے پولیس نے جائے وقوع پر ہی گولی مار کر قتل کردیا تھا اور اس معاملے کو کسی دہشت گرد تنظیم سے منسلک کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: ترک صدر کا فرانسیسی صدر کو ‘دماغی معائنہ’ کرانے کی تجویز

مذکورہ واقعے کے بعد فرانسیسی صدر نے گستاخانہ خاکے دکھانے والے استاد کو ‘ہیرو’ اور فرانسیسی جمہوریہ کی اقدار کو ‘مجسم’ بنانے والا قرار دیا تھا اور فرانس کے سب سے بڑے شہری اعزاز سے بھی نوازا تھا۔

برطانوی اخبار انڈیپینڈنٹ کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پیرس میں مذکورہ استاد کی آخری رسومات میں فرانسیسی صدر نے خود شرکت کی تھی جس کے بعد 2 فرانسیسی شہروں کے ٹاؤن ہال کی عمارتوں پر چارلی ہیبڈو کے شائع کردہ گستاخانہ خاکوں کی کئی گھنٹوں تک نمائش کی گئی تھی۔

خیال رہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ فرانسیسی صدر کی جانب سے اسلام مخالف بیان سامنے آیا ہو، رواں ماہ کے آغاز میں فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے فرانس کے سیکیولر “بنیاد پرست اسلام” کے خلاف دفاع کے منصوبوں کی نقاب کشائی کی تھی اور اس دوران اسلام مخالف بیان بھی دیا تھا۔

ایمانوئیل میکرون نے فرانس کی سیکیولر اقدار کے ‘بنیاد پرست اسلام’ کے خلاف ‘دفاع’ کے لیے منصوبے کو منظر عام پر لاتے ہوئے اسکولوں کی سخت نگرانی اور مساجد کی غیر ملکی فنڈنگ کے بہتر کنٹرول کا اعلان کیا تھا۔

اس سے قبل گزشتہ ماہ فرانسیسی ہفتہ وار میگزین چارلی ہیبڈو کی جانب سے دوبارہ گستاخانہ خاکے شائع کرنے پر ایمانوئیل میکرون نے کہا تھا کہ فرانس میں اظہار رائے کی آزادی ہے اور چارلی ہیبڈو کی جانب سے گستاخانہ خاکے شائع کرنے کے فیصلے پر وہ کوئی حکم نہیں دے سکتے۔

تبصرے (0) بند ہیں