گستاخانہ خاکے: اعصام الحق کا پیرس ماسٹرز ٹینس ٹورنامنٹ میں پر امن احتجاج کرنے کا اعلان

اپ ڈیٹ 04 نومبر 2020
انہوں نے کہا کہ وائٹ بینڈ پہن کر ہم یکجہتی اور مذہبی رواداری کا مظاہرہ کریں گے— فائل فوٹو: اے ایف پی
انہوں نے کہا کہ وائٹ بینڈ پہن کر ہم یکجہتی اور مذہبی رواداری کا مظاہرہ کریں گے— فائل فوٹو: اے ایف پی

پاکستانی ٹینس اسٹار اعصام الحق نے فرانس میں گستاخانہ خاکوں کے معاملے پر اپنا پرامن احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے 'پیرس ماسٹرز' گیمز میں 'وائٹ بینڈ' پہننے کا اعلان کردیا۔

ٹوئٹر پر جاری اپنے ویڈیو پیغام میں انہوں نے مسلمانوں سمیت دنیا بھر کے کھلاڑیوں پر زوردیا کہ وہ بھی وائٹ بینڈ پہن کر اپنا احتجاج ان کے خلاف ریکارڈ کرائیں جو دوسروں کے مذہب، ثقافت یا عقائد کا احترام نہیں کرتے۔

انہوں نے کہا کہ وائٹ بینڈ پہن کر ہم یکجہتی اور مذہبی رواداری کا مظاہرہ کریں گے۔

اعصام الحق نے کہا کہ میں نے بطور کھلاڑی سیکھا ہے کہ ہمیشہ ہر کسی کے مذہب، ثقافت اور عقائد کا احترام کریں۔

انہوں نے کہا کہ آزادی اظہار رائے کا مطلب یہ نہیں کہ کسی کے مذہب اور عقائد کی توہین کی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں فرانس کے شہر پیرس میں 'پیرس ماسٹرز ٹینس ٹورنامنٹ' میں شرکت کے لیے موجود ہوں جہاں فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے آزادی اظہار رائے کی آڑ میں گستاخانہ خاکوں کی حمایت کی۔

مزید پڑھیں: پرتشدد واقعات کے بعد فرانس کی مسلمان آبادی دباؤ کا شکار

ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت مایوس کن ہے کہ یہاں کے لوگوں کو مذہب اور نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی توہین کے لیے اکسایا جارہا ہے۔

واضح رہے کہ یورپ میں سب سے زیادہ مسلمان آبادی والے ملک فرانس میں اسلام دوسرا سب سے بڑا مذہب ہے، البتہ 50 لاکھ مسلمان آبادی والے اس ملک میں مسلمانوں کو ان کے آبائی ملک کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے انہیں عمومی طور پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

سیکولر اقدار کے حامل فرانس میں آزادی اظہار رائے پر کوئی پابندی نہیں جس کے تحت ہر کوئی اپنے مذہب کے حوالے سے آزاد ہے، البتہ حالیہ عرصے کے دوران حکومت نے مسلمانوں کو مذہبی بنیادوں پر لگام ڈالنے کی کوشش کی ہے اور اس سلسلے میں 1905 میں بنائے گئے سیکولر قانون میں ترمیم کی کوشش کی جارہی ہے۔

فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون کے حالیہ اسلام مخالف بیان اور گستاخانہ خاکوں کا دفاع کیے جانے پر مسلم دنیا میں شدید ردعمل سامنے آیا ہے اور اکثر ممالک میں فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کردیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: فرانس: چارلی ہیبڈو کے سابقہ دفاتر کے قریب چاقو کے حملے میں 4 افراد زخمی

یاد رہے کہ حالیہ عرصے میں فرانس میں آزادی اظہار رائے کے غلط استعمال کے نتیجے میں پرتشدد واقعات میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے جہاں کلاس میں گستاخانہ خاکے دکھانے والے ٹیچر سیمیول پیٹی پر ان کے اسکول کے باہر 16 اکتوبر کو حملہ کیا گیا تھا۔

تیونس کے ایک نوجوان نے نیس میں جمعرات کو چرچ میں ایک خاتون سمیت تین افراد کو قتل کردیا تھا اور ان پرتشدد واقعات کا آغاز 25 ستمبر کو ہوا تھا جب چارلی ہیبڈو کے سابق دفتر کے باہر ایک شخص نے دو افراد کو حملہ کر کے زخمی کردیا تھا۔

اخبار کی جانب سے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے بعد جنوری 2015 میں حملہ آوروں نے وہاں 12 افراد کو قتل کردیا تھا اور ملزمان کا ٹرائل ابھی جاری ہے۔

میکرون اپنے ملک میں اسلام کو ایک نئی شکل دینا چاہتے ہیں جس کے تحت مساجد میں امامت کرنے والوں کو تربیت فراہم کی جائے گی جبکہ ملک کے سیکولر خدوخال میں بھی کچھ تبدیلیوں کا امکان ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ فرانس میں اس طرح کا تناؤ سے بھرپور ماحول ہے بلکہ 2004 میں بھی ملک میں اسلام مخالف ایک لہر دیکھی گئی تھی جب کلاس میں خواتین کے سر پر اسکارف پہننے پر پابندی عائد کردی گئی تھی جبکہ 2010 میں چہرہ ڈھانپنے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔

ملک میں اسلام بتدریج پھیلا جس کے بعد مساجد اور مسلمانوں کے اسکولوں میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا۔

فرانس میں مسلمان ابتدائی طور پر جنگ عظیم دوئم کے بعد روزگار کے حصول کے لیے 1970 کی دہائی میں آئے اور پھر مختلف نوکریوں میں اپنی مہارت کی بدولت فرانسیسی معاشرے کا لازمی جزو بن گئے اور ان کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کمپنیوں نے انہیں سہولیات بھی فراہم کیں جیسے کارساز کمپنی رینالٹ نے مسلمان عملے کے لیے نماز کے کمرے کا انتظام کیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں