امریکا میں صدارتی انتخاب کی پولنگ کے بعد ووٹوں کی گنتی اور نتائج آنے کا سلسلہ جاری ہے جس سے ڈیموکریٹ پارٹی کے امیدوار جو بائیڈن اور ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان مقابلہ سخت ہوتا جارہا ہے۔

اب تک کے غیر حتمی نتائج کے مطابق جو بائیڈن 238 الیکٹورل ووٹ جیتنے میں کامیاب ہوئے جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ 213 الیکٹورل ووٹ کے ساتھ ان سے پیچھے ہیں۔

7 ریاستوں کے نتائج آنا تاحال باقی ہے جن میں وِسکونسِن، مشی گن، پنسلوینیا، الاسکا، جارجیا، نواڈا اور نارتھ کیرولائنا شامل ہیں، جو بائیڈن کو کامیابی کے لیے ان ریاستوں میں سے کم از کم تین جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کو کم از کم چار میں کامیابی حاصل کرنا ضروری ہے۔

غیر ملکی خبر رساں اداروں کے مطابق امریکی صدر کو اب تک 50 میں سے 21 ریاستوں میں برتری حاصل ہے، تاہم نتائج آنے کا سلسلہ جاری ہے البتہ ڈونلڈ ٹرمپ کے سخت مقابلے والی سوئنگ ریاستوں میں جیتنے کے امکان زیادہ ہیں۔

امریکی صدر سب سے اہم سوئنگ یعنی سخت مقابلے والی ریاست فلوریڈا کے 29 الیکٹورل ووٹس حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں کیوں کہ اس کا مطلب ہے کہ انتخابی نتائج پر انہیں برتری حاصل ہے اور بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ 200 سالوں سے اس ریاست میں کامیاب ہونے والا امیدوار صدارتی انتخاب جیتا ہے۔

اس کے علاوہ امریکی صدر نے ایک اور اہم ریاست ٹیکساس میں بھی کامیابی حاصل کرتے ہوئے 29 الیکٹورل ووٹ حاصل کرلیے۔

دوسری جانب جو بائیڈن امریکا کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست کیلیفورنیا میں جیتنے میں کامیاب ہوئے جس کے 55 الیکٹورل ووٹس ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی انتخابات میں ماضی کے مقابلے میں کیا کچھ مختلف ہوا؟

کیلیفورنیا کو کسی بھی دوسری ریاست کے مقابلے سب سے زیادہ 55 الیکٹورل ووٹ حاصل ہیں جبکہ یہ جو بائیڈن کی نائب صدارتی امیدوار کمالا ہیرس کی آبائی ریاست بھی ہے۔

دیگر سوئنگ ریاستیں جو کہ انتخابی نتائج میں فیصلہ کن کردار ادا کریں گی،ان کا نتیجہ آنا باقی ہے۔

صدر کے انتخاب کے ساتھ حالیہ ووٹ سے یہ فیصلہ بھی ہوجائے گا کہ کون سی جماعت آئندہ 2 سال کے لیے امریکی کانگریس کا کنٹرول سنبھالے گی۔

دوسری جانب امریکی سینیٹ کا کنٹرول بھی داؤ پر لگا ہے اور اگر جو بائیڈن وائٹ ہاؤس میں داخل ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ڈیموکریٹس کو پورے واشنگٹن کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے صرف 3 سیٹیں درکار ہوں گی کیوں کہ کانگریس میں بدستور ڈیموکریٹس کی برتری رہنے کا امکان ہے۔

ابتدائی نتائج

جیسے ہی پولنگ کا عمل مکمل ہوا امریکی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) نے ریاست کنیکٹی کٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ اور ورمونٹ میں جو بائیڈن کی کامیابی کی نوید سنائی تھی۔

جو بائیڈن کا اپنے حامیوں سے خطاب—تصویر: اے پی
جو بائیڈن کا اپنے حامیوں سے خطاب—تصویر: اے پی

اس کے علاوہ امریکی صدر کے الابامہ، مسی سپی اور اوکلاہوما میں جبکہ جو بائیڈن کے میسا چوسیٹس، اپنی آبائی ریاست ڈیلا ویئر اور ورجینیا میں جیتنے کے امکان روشن ہیں۔

مزید پڑھیں: بائیڈن اور ٹرمپ دونوں کو فتح کا دعویٰ، امریکی صدر کا دھاندلی کا الزام

علاوہ ازیں ڈونلڈ ٹرمپ کو رجینیا، جنوبی کیرولینا، ٹینیسی،ارکنساس،انڈیانا، لوزیانا، نیبراسکا، نیبراسکا کے تیسرے کانگریسی ضلع، نارتھ ڈیکوٹا اور وایومنگ میں برتری حاصل ہے۔

دوسری جانب جو بائیڈن نے کنیکٹی کٹ، ایلینوائے، میری لینڈ،میسا چوٹیس،نیو جرسی، رھوڈ آئی لینڈ، نیو میکسکو،نیو یارک اور کولمبیا اور کولوراڈو کے ضلع میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔

انتخابی مرحلہ

امریکا میں صدارتی انتخاب کے لیے ڈاک کے ذریعے بھی ووٹ ڈالے جاتے ہیں اور باضابطہ پولنگ کے لیے مقرر دن سے کئی روز پہلے اس کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، عالمی وبا کے باعث پیدا ہونے والی صورتحال کے سبب امریکی شہریوں کی بہت بڑی تعداد نے ڈاک کے ذریعے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔

رپورٹس کے مطابق 10 کروڑ 20 لاکھ امریکی شہریوں نے ووٹنگ کے دن سے پہلے ہی اپنا ووٹ دے دیا اس کے باوجود لاکھوں لوگ الیکشن کے روز اپنا حکمران چننے کے لیے قطاروں میں کھڑے نظر آئے۔

بڑی تعداد میں امریکی شہری اپنا حق رائے دہی پہلے ہی استعمال کرچکے تھے—تصویر: رائٹرز
بڑی تعداد میں امریکی شہری اپنا حق رائے دہی پہلے ہی استعمال کرچکے تھے—تصویر: رائٹرز

3 نومبر یعنی صدارتی انتخابی کے لیے مقرر پولنگ ڈے کے دوران متعدد ووٹرز کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ماسک لگائے اور سماجی فاصلہ برقرار رکھتے نظر آئے۔

تاہم خوش آئندہ بات ہے کہ پولنگ اسٹیشنز پر کسی قسم کی بد مزگی یا اشعال انگیزی کے آثار نظر نہیں آئے جیسا کہ حکام کو خدشہ تھا۔

یہ بھی پڑھیں: کیا ٹرمپ21 ویں صدی میں دوسری بار منتخب نہ ہونے والے پہلے صدر ہوں گے؟

اے پی کے سروے کے مطابق کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں دوبارہ تیزی کے باعث انتخابات میں امریکی ووٹرز کے لیے عالمی وبا اور معیشت سب سے اہم معاملات رہے۔

امریکی صدارتی انتخاب میں کامیابی کا طریقہ

دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی انتخابی نظام میں زیادہ ووٹ حاصل کرنا کسی امیدوار کی کامیابی کی ضمانت نہیں کیوں کہ کہ امریکی صدر کا انتخاب عوام براہ راست نہیں کرتے بلکہ وہ ان الیکٹورل کالج کو چنتے ہیں جو عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے صدر کا انتخاب کرتے ہیں۔

کسی بھی امیدوار کو امریکی صدر کے منصب پر فائر ہونے کے لیے 50 ریاستوں کے مجموعی 538 میں کم از کم 270 الیکٹورل کالجز کی حمایت درکار ہوتی ہے۔

امریکی صدر کی کامیابی کے حتمی نتائج آنے میں کئی روز لگ سکتے ہیں—تصویر: اے پی
امریکی صدر کی کامیابی کے حتمی نتائج آنے میں کئی روز لگ سکتے ہیں—تصویر: اے پی

کامیاب صدارتی امیدوار کے اعلان میں کئی روز لگ سکتے ہیں،امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے حریف امیدوار جو بائیڈن دونوں کے حامی حالیہ انتخاب کو امریکی صدر کے ریفرنڈم کے طور پر دیکھ رہے ہیں جو اگر کامیاب نہ ہوسکے تو 1992 میں ریپبلکن صدر جارج بش سینئر کے بعد دوسری مدت کے لیے انتخاب ہارنے والے پہلے امریکی صدر ہوں گے۔

ڈونلڈ ٹرمپ اپنے عہدہ صدارت کی 4 سالہ ہنگامہ خیز مدت کے بعد دوبارہ میدان میں اترے ہیں، ان 4 سالوں کے دوران عالمی وبا کورونا وائرس کے سبب ڈولتی معیشت، مواخذے کا ڈرامہ، انتخابات میں روسی مداخلت، امریکا میں نسل پرستی کے خلاف احتجاج اور متنازع امیگریشن پالیسیز جیسے معاملات نمایاں رہے۔

دوسری جانب جو بائیڈن سابق امریکی صدر باراک اوبامہ کے دونوں صدارتی ادوار میں امریکی نائب صدر کے منصب پر فائز رہے اور 50 سالوں پر محیط سیاسی کیریئر کے دوران تیسری مرتبہ عہدہ صدارت کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں