بنگلا دیش میں پہلے ’خواجہ سرا‘ مدرسے کا قیام

07 نومبر 2020
مدرسے میں ابتدائی طور پر 150 خواجہ سرا افراد کو تعلیم دی جا رہی ہے—فوٹو: اے ایف پی
مدرسے میں ابتدائی طور پر 150 خواجہ سرا افراد کو تعلیم دی جا رہی ہے—فوٹو: اے ایف پی

جنوبی ایشیا کے آبادی کے لحاظ سے دوسرے بڑے مسلم ملک بنگلادیش میں پہلی بار تیسری جنس کے افراد کے لیے اسلامی تعلیمات سمیت دیگر علوم کی تعلیم کے لیے مدرسہ کھول دیا گیا۔

بنگلادیشی حکومتی اندازوں کے مطابق وہاں خواجہ سرا افراد کی آبادی 50 ہزار تک ہے، تاہم ایسے افراد کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق وہاں مخنث افراد کی آبادی 15 لاکھ تک ہے۔

بنگلادیش میں بھی خطے کے دیگر ممالک کی طرح خواجہ سرا افراد کو سماجی اہمیت حاصل نہیں، تاہم وہاں 2013 سے ایسے افراد کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہے۔

بنگلادیش میں بھی زیادہ تر خواجہ سرا افراد کم عمری میں ہی سماجی مسائل اور نفرتوں کی وجہ سے اپنے اہل خانہ سے الگ ہوکر اپنے جیسے دیگر افراد کے ساتھ رہنے پر مجبور ہیں اور ایسے افراد کے لیے کسی طرح کا خصوصی تعلیمی منصوبہ بھی نہیں۔

لیکن اب وہاں خواجہ سرا افراد کے لیے پہلی دینی مدرسے کو کھول دیا گیا، جس میں انہیں اسلامی تعلیم سمیت دیگر انگریزی، ریاضی، معاشرتی علوم، سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم بھی دی جائے گی۔

مدرسے میں خواجہ سرا افراد کو دینی سمیت دنیاوی تعلیم بھی دی جائے گی—فوٹو: اے ایف پی
مدرسے میں خواجہ سرا افراد کو دینی سمیت دنیاوی تعلیم بھی دی جائے گی—فوٹو: اے ایف پی

خبر رساں ادارے ایجنسی پریس فرانس (اے ایف پی) کی رپورٹ کے مطابق بنگلادیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں 6 نومبر سے پہلے خواجہ سرا مدرسے کو تعلیم کے لیے کھول دیا گیا۔

خواجہ سرا افراد کے لیے کھولے گئے مدرسے کو ’اسلامک تھرڈ جینڈر اسکول‘ کا نام دیا گیا ہے، جس میں ابتدائی طور پر 150 بالغ مخنث افراد کو داخلہ دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں پہلی بار ’خواجہ سراؤں‘ کے اسکول کا قیام

تین منزلہ مدرسے میں تعلیم حاصل کرنے والے افراد کے لیے کھانے اور رہائش کا بندوبست بھی ہے، جب کہ دوران تعلیم انہیں مختلف فنون کی تربیت بھی دی جائے گی۔

مدرسے میں داخلے یا تعلیم حاصل کرنے کے لیے کسی طرح کی عمر کی کوئی بندش نہیں رکھی گئی اور اس میں خواجہ سرا سمیت متنازع جنسی رجحانات رکھنے والے افراد یعنی ہم جنس پرست افراد اور اپنی جنس تبدیل کروانے والے افراد کو بھی تعلیم دی جائے گی۔

خیال کیا جاتا ہے کہ بنگلادیش میں قریبا 10 ہزار خواجہ سرا افراد جو پیدائشی طور پر لڑکے تھے، انہوں نے بلوغت کو پہنچنے تک یا بعد میں اپنی جنس تبدیل کروالی، تاہم اس حوالے سے مستند اعداد و شمار دستیاب نہیں۔

مدرسے میں قیام و طعام کا انتظام بھی کیا گیا ہے—فوٹو: اے ایف پی
مدرسے میں قیام و طعام کا انتظام بھی کیا گیا ہے—فوٹو: اے ایف پی

بنگلادیش میں ہم جنس پرستی، جنس تبدیل کروانا اور خواجہ سرا افراد کی ایک دوسرے سے شادی کی ممانعت ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں