کیا دنیا میں ہر جگہ آسانی سے دستیاب سستی دردکش دوا اسپرین نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کا ممکنہ علاج ثابت ہوگی؟

یہ تعین کرنے کے لیے برطانیہ میں ایک بہت بڑے ٹرائل کا آغاز ہورہا ہے جس میں تجزیہ کیا جائے گا کہ یہ گولی کووڈ کے شکار افراد میں بلڈ کلاٹس کا خطرہ کم کرنے میں مددگار ثابت ہوگی یا نہیں۔

برطانیہ کے ریکوری ٹرائل میں شامل سائنسدانوں کی جانب سے کووڈ 19 کے علاج کے لیے متعدد آپشنز کا جائزہ لیا جارہا ہے اور ان کے مطابق ایسا ایک علاج وہ عام دوا ہوسکتی ہے جو خون پتلا کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔

ٹرائل کے شریک سربراہ پیٹر ہوربے نے خبررساں ادارے رائٹرز کو بتایا 'اس پر یقین کرنے کے لیے وجہ موجود ہے کہ اسپرین ممکنہ طور پر فائدہ مند ہوسکتی ہے، جو کہ ایک محفوظ ، سستی اور بڑے پیمانے پر دستیاب ہے'۔

خیال رہے کہ کورونا وائرس کے مریضوں میں بلڈ کلاٹس کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے اور اسپرین وہ دوا ہے جو خون پتلا کرنے میں مددگار ہے اور اس سے کلاٹس کا خطرہ کم ہوسکتا ہے۔

اس ٹرائل کے دوران کم از کم 2 ہزار مریضوں کو روزانہ معمول کے علاج کے ساتھ 15 ملی گرام اسپرین کا استعمال کرایا جائے گا۔

ان مریضوں کے ڈیٹا کا موازنہ دیگر ایسے کم از کم 2 ہزار مریضوں سے کیا جائے گا جو کووڈ 19 کا کوئی اور علاج کرا رہے ہوں گے۔

اس سے پہلے کچھ تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا کہ روزانہ کچھ مقدار میں اسپرین کا استعمال مخصوص اقسام کے کینسر کا خطرہ کم کرتا ہے۔

مگر خون پتلا کرنے والی دوا ہونے کی وجہ سے اسپرین کا طویل المعیاد بنیادوں پر زیادہ استعمال جسم کے اندر جریان خون کا خطرہ بڑھاتا ہے، جبکہ گردوں کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

اس ٹرائل میں دیگر طریقہ علاج بشمول عام اینٹی بائیوٹیک azithromycin اور اس اینٹی باڈی کاک ٹیل کی بھی جانچ پڑتال کی جارہی ہے جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کووڈ 19 کے علاج کے لیے استعمال کی گئی۔

اس سے قبل ریکوری ٹرائل میں سب سے پہلے دریاافت کیا گیا تھا کہ ایک اسٹرائیڈ ڈیکسا میتھاسون سے کووڈ 19 سے سنگین حد تک بیمار افراد کی زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں۔

اسی ٹرائل میں یہ بھی ثابت کیا گیا کہ انسداد ملیریا دوا ہائیڈرو آکسی کلورکوئن سے کووڈ 19 کے مریضوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

یہ برطانوی ٹرائل اس وقت شروع ہورہا ہے جب گزشتہ ماہ ایک تحقیق میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ کووڈ 19 کے باعث ہسپتال میں زیرعلاج مریض اگر روزانہ کم مقدار میں اسپرین کا استعمال کریں، ان میں اس وبائی مرض سے پیچیدگیوں اور موت کا خطرہ کم ہوسکتا ہے۔

امریکا کی یونیورسٹی آف میری لینڈ اسکول آف میڈیسین کی تحقیق میں دعویٰ کیا گیا کہ اسپرین استعمال کرنے والے کووڈ 19 کے مریضوں کا آئی سی یو تک پہنچنے یا وینٹی لیٹر سپورٹ پر جانے کا امکان دیگر کے مقابلے میں کم ہوتا ہے اور اس دوا سے دور رہنے والوں کے مقابلے میں ان میں موت کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے۔

طبی جریدے اینستھیسیا اینڈ اینل جیسیا میں شائع تحقیق میں 'محتاط امید' کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک سستی اور آسانی سے دستیاب دوا کووڈ 19 کی سنگین پیچیدگیوں کی روک تھام کرسکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک اہم ترین دریافت ہے کہ جس کلینیکل ٹرائل سے تصدیق کرنے کی ضرورت ہے، اگر اس کی تصدیق ہوگئی، تو اس سے اسپرین پہلی بڑے پیمانے پر دستیاب دوا بن جائے گی جو کووڈ 19 کے مریضوں کی شرح اموات کم کرسکے گی۔

اس تحقیق کے دوران 412 کووڈ 19 کے مریضوں کے ریکارڈ کا جائزہ لیا گیا جو گزشتہ چند ماہ کے دوران اس بیماری کی پیچیدگیوں کے باعث ہسپتال میں زیرعلاج رہے تھے۔

ان مریضوں کا علاج میری لینڈ یونیورسٹی کے میڈیکل سینٹر میں ہوا تھا، جن میں سے 25 فیصد افراد ایسے تھے جو ہسپتال میں داخل ہونے سے قبل یا اس کے بعد روزانہ 81 ملی گرام اسپرین کا استعمال کررہے تھے تاکہ خون کی شریانوں سے جڑے امراض کی روک تھام کرسکیں۔

محققین نے دریافت کیا کہ اسپرین کا استعمال کرنے سے وینٹی لیٹر سپورٹ کا خطرہ 44 فیصد، آئی سی یو میں داخلے کا امکان 43 فیصد اور موت کا خطرہ 47 فیصد تک کم ہوسکتا ہے۔

تحقیق میں بھی دریافت کیا گیا کہ اسپرین استعمال کرنے والوں میں ہسپتال کے دوران مختلف پیچیدگیوں جیسسے جریان خون جیسا مضر اثر نظر نہیں آیا۔

محققین نے متعدد عناصر جیسے عمر، جنس، جسمانی وزن، نسل، فشار خون اور ذیابیطس کو مدنظر رکھا جبکہ امراض قلب، گردوں کے امراض، جگر کے امراض اور بلڈ پریشر کی روک تھام کے لیے ادویات کو بھی نتائج کے پیش نظر رکھا۔

میری لینڈ یونیورسٹی کے ماہرین کا کہنا تھا کہ ہمارا ماننا ہے کہ اسپرین کی خون پتلا کرنے والی خصوصیت کووڈ 19 کے مریضوں کو ننھے کلاٹس سے بچانے میں مدد دیتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کووڈ 19 کی تشخیص پر مریضوں کو روزانہ اسپرین کے استعمال پر غور کرنا چاہیے تاہم پہلے ڈاکٹر سے مشورہ ضرور کریں۔

ایسے افراد جو گردوں کے امراض کے شکار ہیں یا مخصوص ادویات کا استعمال کررہے ہیں، ان کے لیے اسپرین کا استعمال نقصان دہ ہوسکتا ہے۔

محققین نے مزید بتایا کہ اس تحقیق سے کووڈ 19 کے نئے علاج کی دریافت مین مدد ملے گی اور مریضوں کی زندگیاں بچانا ممکن ہوسکے گا، اگرچہ اس حوالے سے اسپرین کے استعمال کے حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے مگر اب تک شواہد سے عندیہ ملتا ہے کہ مریضوں کو اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کرنا اہیے کہ ان کے لیے اسپرین کا استعمال محفوظ ہے یا نہیں، تاکہ ممکنہ پیچیدگیوں سے بچ سکیں۔

تبصرے (0) بند ہیں