فوجی حکام کل اراکین قومی اسمبلی کو بریفنگ دیں گے

اپ ڈیٹ 10 نومبر 2020
اپوزیشن نے بریفنگ کے بائیکاٹ کا عندیہ دے دیا ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی
اپوزیشن نے بریفنگ کے بائیکاٹ کا عندیہ دے دیا ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: ملک میں بڑھتے ہوئے سیاسی تناؤ کے درمیان قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے بدھ کے روز قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پارلیمانی رہنماؤں کا ایک اہم اجلاس طلب کر لیا ہے جس میں فوجی حکام کی جانب سے قومی سلامتی کے موجودہ امور پر بریفنگ دی جائے گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک سرکاری اعلامیے کے مطابق قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے تمام پارلیمانی رہنماؤں کو اجلاس میں شرکت کی دعوت دیتے ہوئے باضابطہ مراسلہ جاری کر دیا ہے جو ایک سرکاری اعلامیے کے مطابق پارلیمنٹ ہاؤس کے کمیٹی روم نمبر 2 میں منعقد ہو گا۔

مزید پڑھیں: گلگت بلتستان نے انتخابات میں سیکیورٹی کیلئے پنجاب کانسٹیبلری سے مدد مانگ لی

حکومتی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ بریفنگ کا بنیادی مقصد اسٹریٹجک محل وقوع کے حامل واقع گلگت بلتستان کو 'عارضی صوبائی حیثیت' دینے کے بارے میں قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کرنا تھا۔

اگرچہ حکومت یا فوج کے انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کی طرف سے ابھی تک باضابطہ طور پر تصدیق نہیں ہوئی ہے تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ توقع ہے کہ چیف آف آرمی اسٹاف (سی او اے) جنرل قمر جاوید باجوہ اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید بریفنگ دیں گے۔

ذرائع نے بتایا کہ مسلم لیگ (ن) کی سربراہی میں آزاد جموں و کشمیر حکومت کو گلگت بلتستان کو صوبے کی عارضی حیثیت دینے کے اقدام پر کچھ تحفظات ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ بدھ کو ہونے والے اجلاس میں ان کے خدشات کو دور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

یکم نومبر کو گلگت بلتستان کے 73 ویں یوم آزادی کے موقع پر آزادی پریڈ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ حکومت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اس خطے کو صوبے کا عارضی درجہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: گلگت بلتستان میں مرد و خواتین ووٹرز کے فرق میں مزید اضافہ

بریفنگ کے لیے مدعو کیے جانے والوں کی فہرست میں آزاد جموں و کشمیر کے صدر مسعود خان، آزاد کشمیر کے وزیر اعظم راجا فاروق حیدر، گلگت بلتستان کے گورنر راجا جلال مقپون اور گلگت بلتستان کے نگراں وزیر اعلیٰ میر افضل کے نام بھی شامل ہیں۔

اپوزیشن آج پلان کو حتمی شکل دے گی

دریں اثنا، ملک کی دو بڑی اپوزیشن جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی نے اعلان کیا کہ انہوں نے بریفنگ میں شرکت کے بارے میں ابھی تک فیصلہ نہیں کیا اور اس تقریب کے ممکنہ بائیکاٹ کا عندیا دیا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے نائب صدر اور رکن قومی اسمبلی خرم دستگیر خان نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم قومی اسمبلی کے اسپیکر کے تحت کسی بھی اجلاس کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کر چکے ہیں، پارٹی کا خیال ہے کہ اسے بریفنگ میں حصہ نہیں لینا چاہیے تاہم اس سلسلے میں حتمی فیصلہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی دیگر جماعتوں سے مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف حتمی فیصلہ کرنے کے لیے منگل کو پی ڈی ایم کی دیگر ممبر جماعتوں کے رہنماؤں سے مشورہ کریں گے۔

اسی طرح مسلم لیگ (ن) کے جنرل سیکریٹری احسن اقبال سے رابطہ کرنے پر انہوں نے کہا کہ پارٹی بریفنگ میں اپنی شرکت کے بارے میں ابھی تک فیصلہ نہیں کر سکی، انہوں نے کہا کہ فی الحال وہ گلگت بلتستان میں انتخابی مہم چلانے میں مصروف ہیں، انہوں نے کہا کہ چونکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی گلگت بلتستان میں موجود ہیں لہٰذا انہیں اس معاملے پر بات کرنے کا موقع ملے گا۔

مزید پڑھیں: گلگت بلتستان انتخابات میں آر ٹی ایس کے استعمال کا فیصلہ نہ ہوسکا

جب پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر جو بلاول بھٹو زرداری کے سرکاری ترجمان بھی ہیں، سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ شام کے وقت اسپیکر کی دعوت کے بارے میں انہیں اس وقت معلوم ہوا جب وہ انٹرنیٹ کے حامل ایک علاقے کی حدود میں آئے، انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری کو انتخابی مہم چلانے کے لیے گلگت بلتستان کی سپریم اپیلٹ کورٹ نے 12 نومبر تک علاقے میں رہنے کی اجازت دی تھی اور اب تک انہوں نے اسلام آباد واپس جانے کا کوئی منصوبہ نہیں بنایا ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس سلسلے میں حتمی فیصلہ آج (منگل) کو کیا جائے گا۔

اپوزیشن کے جن اراکین کو اجلاس کے لیے مدعو کیا گیا ہے ان میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور سینیٹر شیری رحمٰن، مسلم لیگ (ن) کے خواجہ آصف اور مشاہد اللہ خان، بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل اور ان کی پارٹی کے سینیٹر جہانزیب جمالدینی، جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق، عوامی نیشنل پارٹی کے امیر حیدر ہوتی اور ستارہ ایاز، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے اسد محمود اور مولانا عبدالغفور حیدری، نیشنل پارٹی کے میر کبیر شاہی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے عثمان کاکڑ شامل ہیں۔

یاد رہے کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر کو اس سے قبل 28 ستمبر کو ہونے والے گلگت بلتستان انتخابات کے حوالے سے پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس منسوخ کرنا پڑا تھا جب حزب اختلاف کی جماعتوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ 16 ستمبر کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ان کے مبینہ متعصبانہ طرز عمل کے سبب کسی پارلیمانی کمیٹی کا حصہ نہیں بنیں گے۔

اپوزیشن جماعتوں نے بھی اسپیکر کے اجلاس بلانے کے اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں اسپیکر اور وفاقی حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: گلگت بلتستان انتخابات میں 50 فیصد سے زائد پولنگ اسٹیشن ‘حساس‘ قرار

یہ پہلا موقع نہیں جب گلگت بلتستان کے معاملے پر پارلیمانی رہنماؤں کے لیے اس طرح کی بریفنگ کا اہتمام کیا جارہا ہے اور پچھلے اس طرح کے اجتماع نے سیاسی تنازع کھڑا کردیا تھا جب وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے انکشاف کیا تھا کہ ایک طرف اپوزیشن لیڈر اپنی تقاریر میں فوج کو نشانہ بنا رہے ہیں اور دوسری طرف وہ فوجی قیادت کے ساتھ خفیہ ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔

وزیر موصوف نے انکشاف کیا کہ اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس (ایم پی سی) سے صرف کچھ دن قبل مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری اور اسد محمود سمیت حزب اختلاف کے اراکین نے آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ سے ملاقات کی ہے۔

16 ستمبر کو ہونے والی اس ملاقات کا وقت اور اس کے حوالے سے انکشاف کو دیکھنے والوں نے اپوزیشن کی کثیرالجماعتی کانفرنس سے جوڑا تھا جس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف نے فوج پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں ریاست کے اوپر ایک ریاست ہے۔

وزیر ریلوے کے انکشاف نے اپوزیشن اراکین کو قدم پیچھے ہٹانے پر مجبور کردیا تھا اور انہوں نے واضح کیا کہ وہ اس اجلاس میں صرف اس لیے شریک ہوئے تھے کہ یہ قومی سلامتی کے امور پر ہے، ان کے مطابق طے شدہ زمینی اصولوں کے تحت اجلاس کو خفیہ رکھا جانا تھا۔

مزید پڑھیں: گلگت بلتستان: نگراں حکومت کا انتخابات میں فوج کی مدد نہ لینے کا فیصلہ

وزیر ریلوے نے دعویٰ کیا تھا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے پہلے ہی آرمی چیف کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ گلگت بلتستان کو "عارضی صوبائی حیثیت" دینے کے اقدام کی حمایت کریں گے۔

اجلاس میں آرمی چیف نے مبینہ طور پر سیاسی رہنماؤں سے کہا تھا کہ وہ سیاسی معاملات میں فوج کو گھسیٹنے سے گریز کریں۔

تاہم پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے دعویٰ کیا تھا کہ اجلاس میں صرف اس بات پر اتفاق ہوا تھا کہ 15 نومبر کو گلگت بلتستان میں ہونے والے انتخابات کے بعد اس معاملے کو اٹھایا جائے گا اور اس پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

اپوزیشن کے ایک سینئر رکن نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ حزب اختلاف نے حکومت اور آرمی چیف کو واضح طور پر کہا ہے کہ انتخابات سے قبل اس طرح کا کوئی اقدام 'پری پول دھاندلی' سمجھا جائے گا اور ان کے پاس یہ بھی ہوگا اور وہ اس کے اثرات کو بھی دیکھیں گے کیونکہ تنازع کشمیر سے متعلق پاکستان کے موقف کو پر اثر نہیں پڑنا چاہیے۔

وزیر ریلوے کے مطابق جنرل قمر جاوید باجوہ نے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت میں تبدیلی سے متعلق فیصلے پر عمل درآمد کے وقت کا تعین کرنے کا معاملہ ملک کی سیاسی قیادت پر چھوڑ دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: گلگت بلتستان کو عبوری صوبے کی حیثیت دینے کا اعلان

پیپلز پارٹی کی شیری رحمٰن نے بعد میں کہا کہ گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کو تبدیل کرنا ایک "حساس معاملہ" ہے کیونکہ ہندوستان نے ہمیشہ ہی اس مسئلے پر پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

اس پیشرفت سے باخبر ایک اہم حکومتی وزیر نے ڈان کو بتایا تھا کہ حزب اختلاف کی جماعتوں کی درخواست پر حکومت نے انتخابات کے بعد گلگت بلتستان کو صوبے میں تبدیل کرنے کی تجویز پر مشاورت کا عمل شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے، اس علاقے کے طور پر اپوزیشن کا خیال تھا کہ اگر اب اس طرح کا اقدام شروع کیا گیا تو تحریک انصاف آئندہ انتخابات میں اس کا سیاسی فائدہ اٹھا سکتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں