شکست خوردہ ڈونلڈ ٹرمپ پر جیل کی تلوار لٹکنے لگی

اپ ڈیٹ 10 نومبر 2020
ڈونلڈ ٹرمپ جنوری 2021 تک عہدہ صدارت پر براجمان رہیں گے—فائل فوٹو: اے ایف پی
ڈونلڈ ٹرمپ جنوری 2021 تک عہدہ صدارت پر براجمان رہیں گے—فائل فوٹو: اے ایف پی

نومبر 2016 میں حیران کن طور پر امریکا کے 45 ویں صدر منتخب ہونے والے 74 سالہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اگرچہ گزشتہ 4 سال کے دوران اپنے حریفوں اور دشمن ممالک کو بھی آڑے ہاتھوں لے رکھا تھا۔

تاہم اب خبریں ہیں کہ جلد ہی ان کی مشکلات کا آغاز ہونے والا ہے اور انہیں ممکنہ طور پر جیل کی سزا بھی ہوسکتی ہے۔

کلچر، فیشن اور کرنٹ افیئر کے میگزین وینٹی فیئر کی رپورٹ کے مطابق اگرچہ یہ طے نہیں ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ جنوری 2021 میں عہدہ صدارت سے الگ ہوتے ہی جیل جائیں گے، تاہم امکانات ہیں کہ ان کے خلاف کچھ سنگین کیسز کی تفتیش ہوگی اور وہ ان میں مجرم ثابت ہونے پر جیل جا سکتے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ پر گزشتہ چار سال کے دوران متعدد کرپشن، ٹیکس چوری، مارکیٹنگ اور بزنس فرانڈ سمیت خواتین کے جنسی استحصال کے الزامات لگائے گئے ہیں۔

سال 2020 کے آغاز میں اختیارات کے ناجائز استعمال اور ایوانِ نمائندگان کے کام میں مداخلت کرنے جیسے الزامات کے تحت ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مواخذہ بھی شروع کیا گیا تھا تاہم وہ اس سے بری ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

خبریں ہیں کہ میلانیا ٹرمپ بھی عہدہ صدارت سے ہٹنے کے بعد ٹرمپ سے طلاق لے لیں گی—فائل فوٹو: اے ایف پی
خبریں ہیں کہ میلانیا ٹرمپ بھی عہدہ صدارت سے ہٹنے کے بعد ٹرمپ سے طلاق لے لیں گی—فائل فوٹو: اے ایف پی

علاوہ ازیں صدر مملکت ہونے کی وجہ سے وہ ٹیکس چوری، فراڈ، کرپشن اور خواتین کے استحصال کرنے جیسے مقدمات کی قانونی کارروائی سے بھی بچ گئے اور وہ مزید دو ماہ تک کسی بھی قانونی کارروائی سے محفوظ رہیں گے۔

لیکن جنوری 2021 میں عہدہ صدارت سے ہٹتے ہی ان کے خلاف قانونی کارروائیوں میں تیزی آنے کے امکانات ہیں اور ممکنہ طور پر کچھ کرمنل کیسز میں جرائم ثابت ہونے پر انہیں جیل کی ہوا بھی کھانی پڑ سکتی ہے۔

اسی حوالے سے کرنٹ افیئرز میگزین نیویارکر نے بھی اپنے مضمون میں بتایا کہ ڈونلڈ ٹرمپ پر ٹیکس چوری، فراڈ، کرپشن اور خواتین کے جنسی استحصال سمیت اختیارات کے غلط استعمال جیسے الزامات ہیں اور انہیں ان میں قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

مضمون میں تجزیہ کیا گیا کہ عین ممکن ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ جن قانونی ماہرین کی خدمات حاصل کریں، وہ انہیں جیل نہ بھجوانے میں کامیاب ہوجائیں تاہم اس کے باوجود انہیں بھاری جرمانوں اور قانونی فیسز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

پولیٹیکل ویب سائٹ پولیٹیکو کے مطابق خیال کیا جا رہا ہے کہ عہدہ صدارت سے ہٹنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کے مالی معاملات کمزور ہوجائیں گے، تاہم یہ بھی رپورٹس ہیں کہ انہوں نے صدارت سے ہٹتے ہی اپنی دولت کو بڑھانے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس بات کے قوی امکانات موجود ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف فراڈ، ٹیکس چوری، اختیارات کے غلط استعمال اور خواتین کو جنسی ہراسانی کا شکار بنانے جیسے مقدمات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ پر کم از کم 3 خواتین کے جنسی استحصال اور ریپ کے الزامات بھی ہیں—فائل فوٹو: اے ایف پی
ڈونلڈ ٹرمپ پر کم از کم 3 خواتین کے جنسی استحصال اور ریپ کے الزامات بھی ہیں—فائل فوٹو: اے ایف پی

رپورٹ کے مطابق خبریں ہیں کہ عہدہ صدارت سے الگ ہونے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ پھر سے شوبز، فیشن، میڈیا انڈسٹری اور ریئل اسٹیٹ کے کاروبار میں سرمایہ کاری کرکے اپنی دولت بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ یہ چہ مگوئیاں بھی ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ عہدہ صدارت سے ہٹنے کے بعد میڈیا کمپنیز کو خریدنے یا ان میں بھاری سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور ممکنہ طور پر وہ نئی میڈیا کمپنی بھی متعارف کرا سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مواخذے کے مقدمے سے بری

ایک طرف جہاں یہ خبریں ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو عہدہ صدارت سے الگ ہونے کے بعد قانونی مقدمات کا سامنا کرنے سمیت جیل جانا پڑ سکتا ہے، وہیں یہ خبریں بھی ہیں کہ ان کی اہلیہ میلانیا ٹرمپ نے بھی ان سے طلاق لینے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔

خبریں ہیں کہ میلانیا ٹرمپ شوہر سے کافی تنگ ہیں اور وہ دنوں کو گن گن کر وقت گزار رہی ہیں اور شوہر کے عہدہ صدارت سے الگ ہونے کے بعد ان سے طلاق لے لیں گی۔

ایسی خبریں وائرل ہونے پر تاحال ڈونلڈ ٹرمپ یا ان کے کسی قریبی شخص یا اہل خانہ نے کوئی رد عمل نہیں دیا۔

خیال رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو 3 نومبر 2020 کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں شکست ہوئی تھی تاہم اس کے باوجود وہ جنوری 2021 کے وسط تک عہدہ صدارت پر براجمان رہیں گے۔

ان کے بعد ڈیموکریٹک امیدوار 77 سالہ جوبائیڈن عہدہ صدارت سنبھالیں گے۔

ممکنہ طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کو جیل کی سزا بھی ہوسکتی ہے، رپورٹس—فائل فوٹو: اے ایف پی
ممکنہ طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کو جیل کی سزا بھی ہوسکتی ہے، رپورٹس—فائل فوٹو: اے ایف پی

تبصرے (0) بند ہیں