کراچی واقعے میں ملوث آئی ایس آئی اور رینجرز کے افسران کو ذمہ داریوں سے ہٹا دیا، آئی ایس پی آر

اپ ڈیٹ 10 نومبر 2020
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے انکوائری کا حکم دیا تھا—فائل فوٹو: آئی ایس پی آر
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے انکوائری کا حکم دیا تھا—فائل فوٹو: آئی ایس پی آر

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کراچی واقعے میں ملوث سندھ رینجرز اور انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے افسران کو معطل کردیا گیا ہے۔

ایک بیان جاری کرتے ہوئے آئی ایس پی آر نے کہا کہ مزارِ قائد کی بے حرمتی کے پسِ منظر میں رونما ہونے والے واقعے پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ کے تحفظات کے حوالے سے فوج کی کورٹ آف انکوائری مکمل ہوگئی ہے جو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے حکم پر کی گئی۔

بیان میں کہا گیا کہ ’کورٹ آف انکوائری کی تحقیقات کے مطابق 18، 19 اکتوبر کی درمیانی شَب پاکستان رینجرز سندھ اور سیکٹر ہیڈ کوارٹرز آئی ایس آئی کراچی کے افسران مزارِ قائد کی بے حرمتی کے نتیجے میں شدید عوامی ردِ عمل سے پیدا شدہ صورتحال سے نمٹنے میں مصروف تھے‘۔

یہ بھی پڑھیں: آرمی چیف کا 'کراچی واقعے' پر نوٹس، کور کمانڈر کو تحقیقات کی ہدایت

آئی ایس پی آر کا بیان میں کہنا تھا کہ ’پاکستان رینجرز اور سیکٹر ہیڈ کوارٹرز آئی ایس آئی کراچی کے افسران پر مزارِ قائد کی بے حرمتی پر قانون کے مطابق بروقت کارروائی کے لیے عوام کا شدید دباؤ تھا‘۔

بیان میں کہا گیا کہ ’ان افسران نے شدید عوامی ردِ عمل اور تیزی سے بدلتی ہوئی کشیدہ صورتحال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سندھ پولیس کے طرزِ عمل کو اپنی دانست میں ناکافی اور سُست روی کا شکار پایا‘۔

آئی ایس پی آر کا مزید کہنا تھا کہ ’ذمہ دار اور تجربہ کار افسران کے طور پر انہیں ایسی ناپسندیدہ صورتحال سے گریز کرنا چاہیے تھا جس سے ریاست کے دو اداروں میں غلط فہمیاں پیدا ہوئیں‘۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’اس کشیدہ مگر اشتعال انگیز صورتحال پر قابو پانے کے لیے اِن افسران نے اپنی حیثیت میں کسی قدر جذباتی ردِ عمل کا مظاہرہ کیا‘۔

مزید پڑھیں: کراچی واقعہ بڑوں کی لڑائی ہے جس میں عمران خان کہیں نہیں، مریم نواز

بیان میں بتایا گیا کہ ’کورٹ آف انکوائری کی سفارشات کی روشنی میں متعلقہ افسران کو ان کی موجودہ ذمہ داریوں سے ہٹا دیا گیا ہے‘۔

ساتھ ہی واضح کیا گیا کہ ضابطہ کی خلاف ورزی پر ان آفیسرز کے خلاف کارروائی جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) میں عمل میں لائی جائے گی۔

معاملے کا پس منظر

یاد رہے کہ 18 اکتوبر کو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے جلسے کے سلسلے میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت کراچی آئی تھی جس نے مزار قائد پر حاضری دی تھی، اس دوران کیپٹن (ر) صفدر اور مسلم لیگ (ن) کے کارکنان نے ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگائے تھے۔

کیپٹن صفدر کو ہوٹل کے کمرے سے گرفتار کیا گیا تھا—فائل فوٹو: اسکرین شاٹ
کیپٹن صفدر کو ہوٹل کے کمرے سے گرفتار کیا گیا تھا—فائل فوٹو: اسکرین شاٹ

بعد ازاں شام کو ہونے والے جلسے کے چند گھنٹوں بعد کراچی کے ایک ہوٹل سے مسلم لیگ (ن ) کے رہنما کیپٹن (ر) صفدر کو مزار قائد کے تقدس کی پامالی سے متعلق مقدمے پر گرفتار کرلیا گیا تھا۔

کیپٹن (ر) صفدر کو اسی روز عدالت سے ضمانت مل گئی تھی تاہم معاملہ اس وقت ایک نئی صورتحال اختیار کر گیا تھا جب مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر کی آواز میں ایک آڈیو سوشل میڈیا پر صحافی کی جانب سے شیئر کی گئی تھی۔

مذکورہ آڈیو میں محمد زبیر یہ الزام لگا رہے تھے کہ ’مراد علی شاہ نے انہیں تصدیق کی تھی کہ پہلے آئی جی سندھ پولیس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی گئی کہ وہ گرفتاری کے لیے بھیجیں‘۔

مزید پڑھیں: گرفتار کیپٹن (ر) محمد صفدر کی ضمانت منظور

آڈیو میں کہا گیا تھا کہ ’جب انہوں نے اس سے انکار کیا تو رینجرز نے 4 بجے اغوا کرلیا اور مجھے وزیراعلیٰ نے یہی بات کہی، میں نے ان سے اغوا کے لفظ پر دوبارہ پوچھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ جی انہیں اٹھایا گیا اور سیکٹرز کمانڈر کے آفس لے گئے جہاں ایڈیشنل آئی جی موجود تھے اور انہیں آرڈر جاری کرنے پر مجبور کیا‘۔

بعدازاں وزیراعلیٰ ہاؤس میں پریس کانفرنس کے دوران وزیراعلیٰ نے کہا تھا کہ جو کچھ ہوا اس کی انکوائری لازمی ہے، رفقا کے ساتھ صلاح مشورے سے فیصلہ کیا ہے کہ حکومت سندھ اس معاملے کی تحقیقات کرے گی۔

تاہم وزیر اعلیٰ کی جانب سے تحقیقاتی کمیٹی بنانے کے اعلان کے کچھ دیر بعد ہی سندھ پولیس کے انسپکٹر جنرل سمیت اعلیٰ پولیس افسران نے کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کے معاملے میں بے جا مداخلت پر چھٹیوں کی درخواست دے دی تھی۔

اس درخواست کے بعد پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے بھی پریس کانفرنس کی تھی اور کہا تھا کہ ایس ایچ او سے لے کر آئی جی کی سطح کے افسران تک سوال کر رہے ہیں کہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے رات 2 بجے کے بعد ہمارے آئی جی کے گھر کے باہر گھیراؤ کیا تھا’۔

ساتھ ہی انہوں نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنے طور پر معاملے کی تحقیقات کریں۔

بعد ازاں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کراچی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کے لیے ’پولیس پر دباؤ‘ ڈالنے سے متعلق واقعے کا نوٹس لیا تھا۔

اس کے علاوہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور بلاول بھٹو زرداری نے آئی جی سندھ سے ملاقات بھی کی تھی جس کے بعد سندھ پولیس نے ایک بیان جاری کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ پولیس کے متعدد اعلیٰ افسران کی چھٹی کی درخواستیں

بیان میں کہا گیا تھا کہ انسپکٹر جنرل سندھ پولیس نے کراچی میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کے لیے ’پولیس پر دباؤ‘ ڈالنے سے متعلق واقعے پر چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے نوٹس لینے کے بعد چھٹیوں پر جانے کا فیصلہ مؤخر کردیا تھا۔

ایک روز قبل ہی پولیس نے مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف مزار قائد کے تقدس کی پامالی کے مقدمے کو 'جھوٹا' قرار دے دیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں