رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔
رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔

7 نومبر 2020ء کو ایک پُرجوش اور متحرک کمالا ہیرس امریکا کی پہلی خاتون اور سیاہ فام خاتون منتخب نائب صدر کے طور پر اسٹیج پر جلوہ افروز ہوئیں۔

خاص طور پر امریکا اور کسی حد تک دنیا کے لیے ایک طویل اور تھکا دینے والے ہفتے کے اختتام پر کمالا کی جانب سے جو تاریخ ساز تقریر کی گئی اس کے اثرات یقیناً دُور رس ہوں گے۔ کمالا کی نامزدگی اور ان کی جیت امریکا اور دنیا بھر کے لیے امکانات کی قوت کا مظہر ہے۔

ہمارے سامنے تارکینِ وطن والدین کی بیٹی کھڑی تھی۔ جس کی والدہ جنوبی ہندوستان اور والد جمیکا سے تھے۔ کمالا نے ان گنت رکاوٹوں کو عبور کرکے تاریخ رقم کی ہے۔ ان کی تقریر کا یادگار ترین جملہ تھا کہ ’میں شاید پہلی خاتون نائب صدر ضرور ہوں لیکن آخری قطعاً نہیں ہوں‘۔ یہ وہ جملہ تھا جسے سن کر وہاں موجود خواتین کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔

مزید پڑھیے: نئی امریکی حکومت کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کیسے ہوں گے؟

جنوبی ایشیا میں اکثر خواتین کی کامیابی کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ کمالا کی جیت پر کچھ زیادہ جوش و خروش نظر نہیں آیا۔ بھارتیوں نے فوراً ہی کمالا پر دعویٰ کردیا۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ بھارتی خواتین کی صلاحیتوں کا مظہر ہیں بلکہ اس کی وجہ یہ امید تھی کہ وہ مودی کو کچھ مراعات دیں گی۔ اس چکر میں آکر کچھ مسلمانوں نے ان کی مخالفت شروع کردی ہے جس کی وجہ اسرائیل کے لیے ان کی مبیّنہ حمایت ہے۔

ظاہر ہے کہ یہ دونوں باتیں ہی غلط ہیں۔ دیگر بھارتی نژاد امریکی امیدواروں (جیسے تلسی گیبرڈ) کے برخلاف کمالا مودی کی حمایت کرنے والے بھارتیوں سے دُور رہتی ہیں۔

براک اوباما کی طرح کمالا ہیرس بھی مختلف زبانوں، ثقافتوں اور برادریوں کے اتحاد کا مظہر ہیں جن سے مل کر امریکی معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ کمالا کی والدہ پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے 19 سال کی عمر میں امریکا آئی تھیں۔ کچھ عرصے بعد ہی انہوں نے کمالا کے والد سے شادی کرلی جو خود بھی جمیکا سے ہجرت کرکے آئے تھے۔ شادی ٹوٹنے کے بعد ان کی والدہ نے اپنی بیٹیوں کی خود پرورش کا فیصلہ کیا۔ وہ ایک ہی وقت میں اپنی بیٹیوں کی پرورش بھی کر رہی تھیں اور کینسر کے مرض پر اپنی تحقیق بھی کر رہی تھیں۔

کمالا کی والدہ نے اپنی بیٹیوں میں انتھک محنت کا جذبہ اور سب سے بڑھ کر یہ احساس پیدا کیا کہ وہ اپنے راستے میں آنے والی کسی بھی رکاوٹ کو عبور کرسکتی ہیں۔ ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کمالا نے ہوورڈ یونیورسٹی (Howard University) میں داخلہ لیا جو تاریخی طور پر سیاہ فام افراد کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سے ایک سمجھی جاتی ہے۔

ہوورڈ کے بعد انہوں نے قانون کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد سے ان کے کرئیر میں ’پہل‘ کا سلسلہ شروع ہوگیا، اور یہ سلسلہ انہیں کیلیفورنیا کی پہلی غیر سفید فام خاتون اٹارنی جنرل سے امریکا کی پہلی غیر سفید فام اور خاتون نائب صدر تک لے آیا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وہ صرف 4 سال قبل ہی پہلی مرتبہ سینیٹر منتخب ہوئی تھیں۔

پاکستان میں بھی لڑکیوں کو یہ کہا جاتا ہے کہ وہ جو چاہیں بن سکتی ہیں لیکن اس بات کا حقیقت سے دُور تک تعلق نہیں ہے۔ یہاں تک کہ جب اس ملک میں ایک خاتون کو وزیرِاعظم بنایا بھی گیا تو ان خاتون کا تعلق بااثر اور جاگیردار گھرانے سے تھا جس کی وجہ سے ان کے خاتون ہونے پر کسی نے توجہ ہی نہیں دی۔ بھارت میں بھی پریانکا گاندھی کی جانب سے سیاست میں آنا ایسی ہی ایک مثال ہے۔

یہاں تک کہ امریکا میں بھی ایسی مثال موجود ہے۔ کمالا نے تو واقعی انتھک محنت اور کاوش سے خود کو اس مقام تک پہنچایا ہے لیکن ان کے برعکس ہلیری کلنٹن نے اپنے شوہر کی صدارت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا سیاسی کیریئر بنایا تھا۔ یہ کہنا درست ہوگا کہ اگر آج کمالا کی جگہ ہلیری ہوتیں تو شاید ہم انہیں جدوجہد کرکے خود کو اس مقام تک لانے والی خاتون کے طور پر نہیں دیکھ رہے ہوتے۔

مزید پڑھیے: ٹرمپ کے بعد امریکی خارجہ پالیسی میں آنے والی بڑی تبدیلیاں کیا ہوں گی؟

جو بائیڈن کی عمر کو دیکھتے ہوئے یہ ممکن ہے کہ وہ اگلی مدتِ صدارت کے لیے انتخاب نہ لڑیں۔ کمالا کے نائب صدر منتخب ہونے سے پہلے بھی یہ باتیں گردش کر رہی تھیں کہ ہوسکتا ہے بائیڈن کے ساتھ موجود نائب صدر ہی اگلے انتخابات میں صدارتی امیدوار ہو۔ اس نظر سے دیکھا جائے تو کمالا کی تقریر دراصل 2024ء کی انتخابی مہم کی ابتدا تھی۔ وہ پہلی خاتون نائب صدر تو بن ہی چکی ہیں، ہوسکتا ہے وہ پہلی خاتون صدر بھی بن جائیں۔

امریکی سیاست میں گزشتہ 4 سال تارکینِ وطن افراد کے لیے بہت کٹھن ثابت ہوئے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے اسلام دشمن اور متعصب مشیر اسٹیفن ملر کی سربراہی میں امریکا کو امریکا بنانے والے اصولوں پر ضرب لگائی۔ سفید فام قوم پرستوں کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے ٹرمپ نے امریکا کی نظریاتی اساس اور مرئی تعریف کو نقصان پہنچایا ہے۔

کمالا ہیرس کا انتخاب ایک اعلان ہے کہ تارکینِ وطن امریکی سیاست میں کوئی حقیر چیز نہیں ہے، جیسا کہ ٹرمپ انہیں سمجھتے تھے۔ اور اگر کمالا کے والدین کو دیکھا جائے تو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہی تارکینِ وطن مستقبل کی امریکی قیادت کو پروان چڑھا رہے ہیں۔

مزید پڑھیے: وائٹ ہاؤس یا ڈی چوک؟ نمائش چورنگی یا مُکا چوک؟ یہ میں کیا دیکھ رہا تھا؟

پاکستان میں اس قسم کے امکانات کی امید نہ کرنا بہت مشکل کام ہے۔ لیکن معاشرے کے مسائل، مردوں کی اجارہ داری اور مذہبی قیادت کی جانب سے عائد کردہ پابندیاں پاکستان میں اس قسم کے امکانات کو ناممکن بنادیتے ہیں۔ عورت کو کیسا ہونا چاہیے؟ یہاں اس بات کا تعلق صرف اس کے لباس، نیک نامی اور گھرداری سے ہی ہوتا ہے، اور جو خواتین اس سے بڑھ کر کچھ کرنا چاہتی ہیں، ان کے خواب خواب ہی رہ جاتے ہیں۔

پاکستان کو اب بدلنا ہوگا۔ دیگر ممالک میں خواتین کو ملنے والی کامیابیاں ہمارے سامنے ایک ایسی جرأت مند دنیا پیش کر رہی ہے جس میں کسی کی جلد کی رنگت یا اس کا فرقہ اس کے راستے کی رکاوٹ نہیں بنتا۔ ٹیکنالوجی نے رابطے کو بہت تیز کردیا ہے۔ لیکن آج بھی پاکستان میں ایک خاتون ڈاکٹر، وکیل یا سائنسدان یہ سوچتی ہے کہ کہیں دفتر میں کسی کام سے دیر تک رکنے پر اس کی ساس ناراض تو نہیں ہوگی؟

بہت جلد ایک سیاہ فام اور تارکینِ وطن والدین کی بیٹی امریکا اور شاید دنیا کی دوسری طاقتور ترین عورت بن جائے گی۔ اس واقعے سے منسلک جوش و خروش دنیا بھر کی خواتین کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستانی خواتین کو بھی اب آگے آنے کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ کمالا کا انتخاب ہمیں بتاتا ہے کہ اگر ایک قوم اپنی خواتین کا ساتھ دے تو رکاوٹوں کی 200 سالہ تاریخ بھی انہیں روک نہیں سکتی۔


یہ مضمون 11 نومبر 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں