جنسی استحصال کے متاثرین کی جانچ کے ٹیسٹ کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ محفوظ

11 نومبر 2020
لاہور ہائیکورٹ کی جج نے فیصلہ محفوظ کیا—فائل فوٹو: وکی میڈیا کامنز
لاہور ہائیکورٹ کی جج نے فیصلہ محفوظ کیا—فائل فوٹو: وکی میڈیا کامنز

لاہور ہائیکورٹ نے جنسی استحصال کے متاثرین کی جانچ کے پرانے طریقہ کار 2 انگلیوں کے ٹیسٹ (ٹی ایف ٹی) کو چیلنج کرنے والی 2 مفاد عامہ کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

خیال رہے کہ درخواستوں میں مذکورہ ٹیسٹ کو غیرانسانی، بے عزتی کرنا اور خواتین کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کہا گیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سماعت مکمل کرنے سے قبل جسٹس عائشہ اے ملک نے ٹیسٹ کو ختم کرنے کے لیے حکومت پنجاب کی جانب سے قانون سازی میں سست روی پر برہمی کا اظہار کیا۔

مزید پڑھیں: 'جنسی استحصال کا شکار افراد کے کنوارے پن کو جانچنے کا ٹیسٹ ختم کردیا جائے گا'

جج کی جانب سے کہا گیا کہ حکومت بیان حلفی دینے کے باوجود قانون سازی کا مجوزہ مسودہ پیش کرنے میں ناکام رہی۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل جواد یعقوب نے عدالت کو بتایا کہ اس معاملے پر صوبائی کابینہ کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس ہوا تھا تاہم جسٹس عائشہ اے ملک نے صوبائی حکومت کے ردعمل کو غیرتسلی بخش قرار دیا۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ وفاقی حکومت نے بھی اس معاملے پر قانون سازی لانے کی یقین دہانی کروائی تھی۔

اس موقع پر درخواست گزاروں کے وکیل نے دلائل دیے کہ عدالت کا دائرہ اختیار ہے کہ وہ مذکورہ معاملے پر قانون سازی کے لیے مقننہ کو حکم دے۔

بعد ازاں جسٹس عائشہ اے ملک نے سماعتوں کو مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا۔

خیال رہے کہ مذکورہ کیس میں صوبائی صحت حکام نے عدالت کو پہلے بتایا تھا کہ دو انگلیوں کے ٹیسٹ کی شہادتیں قدر محدود ہے اور اسے میڈیکو-لیگل سرٹیفکیٹ (ایم ایل سی) کے پروٹوکول سے ختم کردیا جائے گا اِلا یہ کہ اس کی ضرورت نہ ہو۔

یہ بھی پڑھیں: وزارت قانون نے 2 انگلیوں کا ٹیسٹ مسترد کردیا

حکومت کی جانب سے کہا گیا تھا کہ جب تک زخموں اور بیماری کی جانچ کے لیے نیک نیتی میں اس کو کرنے کو ضروری نہیں سمجھا جاتا تب تک ٹی ایف ٹی کو انجام نہیں دینا چاہیے۔

خیال رہے کہ ان 2 میں سے ایک درخواست مسلم لیگ (ن) کی رکن قومی اسمبلی شائستہ پرویز ملک نے دائر کی جبکہ دوسری درخواست میں خواتین کے حقوق کی کارکنان، ماہرین تعلیم، صحافیوں اور وکلا کی جانب سے ہے، جس میں صدف عزیز، فریدہ شاہد، فریحہ عزیز، فرح ضیا، سارہ زمان، ملیحہ ضیا لاری، ڈاکٹر عائشہ بابر اور زینب حسین شامل ہیں۔

تاہم درخواست گزاروں کے مرکزی وکلا میں ایڈووکیٹ سحر زرین بندیال اور بیرسٹر سمیر کھوسہ شامل تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں