’ملک بھر کی جیلوں میں گنجائش سے 15 ہزار 500 قیدی زیادہ ہیں‘

اپ ڈیٹ 12 نومبر 2020
وفاقی محتسب نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ ملک بھر کے جیلوں میں 64 ہزار 99 قیدیوں کی منظور شدہ صلاحیت پر 79 ہزار 603 قیدی موجود ہیں — اے ایف پی:فائل فوٹو
وفاقی محتسب نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ ملک بھر کے جیلوں میں 64 ہزار 99 قیدیوں کی منظور شدہ صلاحیت پر 79 ہزار 603 قیدی موجود ہیں — اے ایف پی:فائل فوٹو

اسلام آباد: وفاقی محتسب نے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی ایک رپورٹ میں اعتراف کیا ہے کہ چاروں صوبوں کی 116 جیلوں میں 64 ہزار 99 قیدیوں کی منظور شدہ صلاحیت پر 79 ہزار 603 قیدی موجود ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں تین ججز پر مشتمل سپریم کورٹ کے بینچ نے جو ملک کی بھری ہوئی جیلوں میں قیدیوں کے حالات سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

سپریم کورٹ کے بینچ نے اس سے قبل وفاقی محتسب سے قیدیوں کی شکایات، بالخصوص خواتین قیدیوں، کے ازالے کے لیے سفارشات مرتب کرنے کو کہا تھا۔

سینئر وکیل حافظ احسان احمد کھوکھر نے وفاقی محتسب کے دفتر کی جانب سے عدالت عظمیٰ کے سامنے پیش کی گئی رپورٹ میں جیلوں کی منظور شدہ گنجائش کے ساتھ ساتھ قیدیوں کے صوبہ کے حساب سے اعداد و شمار بھی فراہم کیے۔

مزید پڑھیں: جاسوسی میں ملوث مزید 2 بھارتی قیدی سزا مکمل ہونے پر رہا

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چاروں صوبوں میں مجموعی طور پر 79 ہزار 603 قیدیوں میں سے 48 ہزار 283 پنجاب کی 43 جیلوں میں ہیں جن کی منظور شدہ صلاحیت 36 ہزار 806 ہے۔

اسی طرح 13 ہزار 538 کی گنجائش کے مقابلے میں سندھ کی 24 جیلوں میں 17 ہزار 322 قیدی موجود ہیں، خیبرپختونخوا کی 38 جیلوں منظور شدہ 11 ہزار 170 کی صلاحیت کے مقابلے میں 11 ہزار 891 قیدی موجود ہیں۔

رپورٹ کے مطابق بلوچستان واحد صوبہ ہے جہاں قیدیوں کی تعداد جیلوں کی منظور شدہ صلاحیت سے کم ہے۔

بلوچستان میں 11 جیلوں میں 2 ہزار 585 قیدیوں کی منظور شدہ صلاحیت کے خلاف 2 ہزار 107 قیدی موجود ہیں۔

عدالت عظمی نے متعلقہ عہدیداروں کو ہدایت کی کہ محتسب کے دفتر کی جانب سے دائر کردہ رپورٹ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان اور تمام صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز کے ساتھ شیئر کریں۔

بینچ نے صوبائی حکومتوں سے بھی کہا ہے کہ وہ رپورٹ میں دی گئی سفارشات پر عمل درآمد کریں۔

فرسودہ قوانین، طریقہ کار

وفاقی محتسب نے بتایا کہ صوبائی انتظامیہ کی طرف سے اطلاعات موصول ہونے کے بعد اس ضرورت کو محسوس کیا گیا کہ سندھ حکومت کے تشکیل کردہ قوانین کے طرز پر صوبوں کی جانب سے فرسودہ قوانین اور طریقہ کار پر نظر ثانی کی جانی چاہیے۔

اس کے علاوہ پروبیشن اور پیرول سسٹم کو صوبوں کی جانب سے قوانین میں ضروری ترامیم کے ذریعے زیادہ مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔

اس رپورٹ میں محکمہ داخلہ اور انسپکٹر جنرل (جیل) کو جیلوں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے کام تیز کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

اس ضمن میں اس بیان میں کہا گیا ہے کہ تمام قیدیوں اور ملنے آئے لوگوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی، ملنے آئے لوگوں کے بیٹھنے کے انتظامات، مناسب بیت الخلا کے قیام کے علاوہ ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل عملے کی آسامیاں بھر کے صحت کی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے پر خصوصی توجہ دی جانی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: گجرات جیل میں عمر قید کے 100سالہ قیدی کی رہائی کی اپیل

محکمہ داخلہ کو یہ تجویز بھی دی گئی کہ وہ عدالتی لاک اپ / بخشی خانہ میں بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے ایک جامع منصوبے پر کام کریں۔

قیدیوں کی بائیومیٹرک تصدیق

اسی طرح صوبائی محکمہ داخلہ سے کہا گیا کہ وہ جیلوں سے لے کر عدالتوں تک قیدیوں کے لیے بائیو میٹرک تصدیق کا نظام / جیل سے لے کر عدالت تک تمام متعلقہ محکموں پر مشتمل مشترکہ انٹرفیس پر کام مکمل کریں۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ محکمہ داخلہ کو قیدیوں کے ریکارڈ کو خود کار بنانے کے عمل کو تیز کرنا چاہیے۔

محتسب نے ذہنی طور پر مریض قیدیوں کو ادویات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے علاوہ منشیات استعمال کرنے اور بڑے جرائم میں ملوث قیدیوں کو دیگر قیدیوں سے الگ رکھنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ وفاقی محتسب سیکریٹریٹ جیل اصلاحات کمیٹی کی سفارشات پر عمل درآمد کے لیے سخت کوششیں کر رہا ہے۔

محکمہ داخلہ اور جیل خانہ جات سے کہا گیا ہے کہ وہ جیلوں میں قیدیوں کو معیاری تعلیم فراہم کرنے کے لیے ہر ضلع کے تعلیمی اداروں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کریں جس کے لیے ڈونرز / تعلیمی اداروں کو حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ مؤثر طریقے سے اپنا اپنا کردار ادا کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں