پشاور: یونیورسٹی کی طالبات کا اساتذہ کی جانب سے ‘ہراساں‘ کیے جانے کے خلاف احتجاج

اپ ڈیٹ 12 نومبر 2020
طالبات نے ہراساں کیے جانے کے خلاف احتجاج کیا—فوٹو: شہباز بٹ/ وائٹ اسٹار
طالبات نے ہراساں کیے جانے کے خلاف احتجاج کیا—فوٹو: شہباز بٹ/ وائٹ اسٹار

پشاور: اسلامیہ کالج یونیورسٹی کی طالبات نے ہراساں کیے جانے کے خلاف احتجاج کیا اور اس عمل میں ملوث اساتذہ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ہراساں کیے جانے کے واقعات پر طالبات، احمد فراز بلاک میں جمع ہوئیں اور نعرے لگاتے ہوئے وائس چانسلر آفس کی طرف مارچ کیا۔

انہوں نے کہا کہ نہ صرف اساتذہ بلکہ دیگر طالبعلم بھی قابل اعتراض جملے کستے ہیں اور کیمپس میں ان کا راستہ روکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: نجی اسکولوں کی طالبات کے اساتذہ پر جنسی ہراسانی کے الزامات، وزارت انسانی حقوق کا نوٹس

ان کا کہنا تھا کہ ہراساں کیے جانے کی شکایات کو دیکھنے کے لیے انتظامیہ کو ایک فوکل پرسن مقرر کرنا چاہیے کیونکہ اس معاملے کے لیے قائم موجودہ کمیٹی صرف کاغذوں کی حد تک تھی اور اس نے مسائل کے حل کے لیے کچھ نہیں کیا۔

اس احتجاج کی قیادت لا ڈپارٹمنٹ اسلامین فراٹرنٹی کے جابر خان اور طالبات نے کی، مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جس پر ہراساں کیے جانے کے خلاف نعرے درج تھے۔

اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور—فائل فوٹو: سارا انصاری
اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور—فائل فوٹو: سارا انصاری

ان کا انتظامیہ سے مطالبہ تھا کہ اس سلسلے میں طلبہ کی جانب سے درج کروائی گئی مختلف شکایات کا نوٹس لیں۔

مظاہرین کی جانب سے الزام لگایا گیا کہ اساتذہ نے امتحانی پرچوں اور تحقیقی منصوبوں کے جانچ (چیکنگ) کے دوران طالبات کو ہراساں کیا لیکن متعلقہ حکام نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔

اس مظاہرے میں دیگر جامعات کے طلبہ نے بھی شرکت کی اور کام کے مقام پر خوانین کو ہراساں کیے جانے کے قانون (ہراسمنٹ آف وومن ایٹ ورک پلیس ایکٹ) 2010 کی روشنی میں ایک ہراسمنٹ کمیٹی کے قیام کا مطالبہ کیا تاکہ طالبات کو اساتذہ کی جانب سے ان کو دی جانے والی دھمکیوں اور دیگر دباؤ کے طریقے سے بچایا جاسکے۔

یہ بھی پڑھیں: گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے وی سی کا جنسی ہراسانی کیس کی تحقیقات کا حکم

انہوں نے طالبات کو درپیش مسائل کو اجاگر کرنے اور ان کو ہراساں کرنے میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا عزم کیا، ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ یونیورسٹی انتظامیہ طلبہ کو پیش آنے والے اس بڑے مسئلے پر آنکھیں بند نہیں کرنی چاہئیں۔

مظاہرین کا کہنا تھا کہ ’ہم طلبہ کو ہراساں کرنے میں ملوث ہر شخص کو بےنقاب کرنے کی اپنی ہر ممکن کوشش کریں گے، ہم اس عمل کے خلاف شعور بیدار کرنے اور طالبات کو اپنی پڑھائی جاری رکھنے کے قابل بنانے پر کام کریں گے‘۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ تعلیمی اداروں کی خواتین سے خاموشی توڑنے اور ایسے اساتذہ کے خلاف ڈٹ جانے کا مطالبہ کیا جو طلبہ کو تنگ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ احتجاجی مہم جاری رہے گی اور اس دوران سیمینارز اور واکس منعقد کی جائیں گی تاکہ کمپسز میں جرم کے پیچھے چھپے چہروں کو بے نقاب کیا جائے۔


یہ خبر 12 نومبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں