سعودی عرب میں ہونے والی پہلی گالف ٹورنامنٹ ڈنمارک خاتون نے جیت لی

16 نومبر 2020
ٹورنامنٹ 24 سالہ ڈنمارکین گالفر نے جیت لی—فوٹو: لیڈیز یورپین ٹوئر
ٹورنامنٹ 24 سالہ ڈنمارکین گالفر نے جیت لی—فوٹو: لیڈیز یورپین ٹوئر

اسلامی دنیا کے اہم ترین ملک سعودی عرب میں پہلی بار ہونے والے خواتین کے گالف ٹورنامنٹ کو یورپی ملک ڈنمارک کی 24 سالہ گالفر ایملی کرسٹائن پڈرسن نے جیت کر نئی تاریخ رقم کردی۔

سعودی عرب کے ساحلی شہر جدہ رائل گرین گالف اینڈ کنٹری کلب میں سعودی لیڈیز انٹرنیشنل (ایس ایل آئی) کی جانب سے منعقد کیا جانے والا پہلا ویمن گالف ٹورنامنٹ 12 نومبر کو شروع ہوا تھا جو 15 نومبر تک جاری رہا۔

مذکورہ ٹورنامنٹ کو لیڈیز یورپین ٹور (ایل ای ٹی) نے منعقد کیا، تاہم اس کی میزبانی سعودی لیڈیز انٹرنیشنل نے کی، جس میں یورپ سمیت مختلف ممالک کی خواتین گالفر نے شاندار کھیل پیش کیا۔

یہ پہلا موقع تھا کہ سعودی عرب نے خواتین کے کسی بھی اسپورٹس فیسٹیول کی میزبانی کی تھی۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق جدہ میں تین روز تک منعقد رہنے والے گالف ٹورنامنٹ کو ڈنمارک کی 24 سالہ گالفر ایملی کرسٹائن پڈرسن نے جیت کر تاریخ رقم کی۔

گالف ٹورنامنٹ جیتنے والی یورپی کھلاڑی کو ڈیڑھ لاکھ امریکی ڈالر یعنی پاکستانی ڈھائی کروڑ روپے سے زائد کی رقم بھی دی گئی۔

اسی طرح ٹورنامنٹ میں دوسرے اور تیسرے نمبر پر آنے والی خواتین کھلاڑیوں کو بھی نقد انعامات دیے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب میں پہلی بار خواتین کے گالف ٹورنامنٹ منعقد کرنے کا اعلان

سعودی عرب میں ہونے والی پہلی خواتین کی گالف ٹورنامنٹ میں کھلاڑیوں کو مختصر لباس پہننے کی اجازت نہیں تھی اور تمام خواتین کھلاڑیوں نے مکمل پینٹ کے ساتھ ٹی شرٹ پہنی۔

اسی طرح شائقین پر بھی مختصر لباس پہننے کی پابندی تھی، البتہ کسی بھی خاتون کو حجاب یا برقع پہننے یا نہ پہننے کا حق حاصل تھا اور زیادہ تر خواتین حجاب کے بغیر ہی ٹورنامنٹ میں شریک ہوئیں۔

A photo posted by Instagram (@instagram) on

سعودی عرب میں اسی مقام پر دو دن بعد خواتین کی دوسری گالف ٹورنامنٹ کا آغاز ہوگا اور وہ بھی تین دن تک جاری رہے گی۔

دوسری ٹورنامنٹ میں جیتنے والی خواتین کو پہلی ٹورنامنٹ کے مقابلے دگنی رقم دی جائے گی اور مجموعی طور پر دوسری ٹورنامنٹ میں 10 لاکھ ڈالر کی رقم تقسیم کیے جانے کا امکان ہے۔

سعودی عرب میں خواتین کی پہلی کامیاب گالف ٹورنامنٹ پر دنیا بھر میں اسلامی ملک کی تعریفیں کی جا رہی ہیں۔

تاہم انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی بعض تنظیموں نے سعودی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ قید کی انسانی حقوق کی کارکن خواتین کو رہا کرنے سمیت حقیقی طور پر انسانی حقوق کی بحالی کو یقینی بنائے۔

A photo posted by Instagram (@instagram) on

تبصرے (0) بند ہیں