دنیا بھر میں لوگ کورونا وائرس کی وبا کا مقابلہ کررہے ہیں اور اب تک ساڑھے 5 کروڑ کے قریب افراد میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوچکی ہے۔

مگر حالیہ ہفتوں میں اس بیماری کی روک تھام کرنے والی ویکسینز کے حوالے سے کافی مثبت خبریں سامنے آئی ہیں۔

فائزر اور بائیو این ٹیک، روس اور موڈرینا کی ویکسینز کے انسانی ٹرائل کے تیسرے مرحلے کے ابتدائی جاری ہوئے، جن میں وہ بیماری سے بچانے کے لیے 90 فیصد سے زیادہ موثر ثابت ہوئیں۔

مگر کیا یہ پیشرفت کورونا وائرس کی روک تھام کرسکے گی اور کب تک زندگی معمول پر آسکے گی؟

اس بارے میں ماہرین کی آرا جان لیں، جن کا تخمینہ ایک دوسرے سے مختلف ہے مگر وہ سب اگلے سال میں حالات بہتر ہونے کے لیے پرامید ہیں۔

ماہرین کے تخمینے کے مطابق اس وبا کو روکنا اسی وقت ممکن ہوسکے گا جب 70 فیصد آبادی میں اس وائرس کے خلاف مدافعت پیدا ہوجائے۔

مگر یہ واضح نہیں کہ اتنے بڑے پیمانے پر ویکسینیشن کب تک ممکن ہوسکے گی۔

امریکا کے ماہر وبائی امراض کے ممتاز ماہر ڈاکٹر انتھونی فاؤچی نے گزشتہ دنوں سی این این سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں امید ہے کہ حالات اپریل سے جولائی کے دوران کسی حد تک معمول پر آجائیں گے۔

ان کے خیال میں ایسا 2021 کی دوسری یا تیسری سہ ماہی میں ممکن ہوسکتا ہے، خصوصاً امریکا میں۔

ان کا کہنا تھا کہ ویکسینز کے ابتدائی نتائج حوصلہ افزا رہے ہیں، مگر ہمیں لوگوں کو ویکسین لینے کے لیے تیار کرنا ہوگا، جس کے بعد توقع ہے کہ حالات دوسری یا تیسری سہ ماہی کے دوران معمول پر آجائیں گے۔

دوسری جانب فائرز ویکسین کی تیاری میں شامل جرمن کمپنی بائیو این ٹیک کے شریک بانی ترک نژاد اوغور شاہین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وبا کے خاتمے کے حوالے سے پیشگوئی کی۔

انہوں نے کہا کہ وہ مانتے ہیں کہ حالات ایک سال کے اندر معمول پر آجائیں گے اور ویکسین کی وجہ سے اگلے سال موسم سرما میں زندگی ماضی جیسی ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ توقع ہے کہ فائزر ویکسین کے مزید تجزیے سے توقع ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان اس کی منتقلی کی شرح مزید کم کرسکے گی اور بیماری کی علامات کی روک تھام بھی ہوسکے گی۔

انہوں نے کہا 'میں پُرامید ہوں کہ لوگوں کے درمیان بیماری کی منتقلی میں اس طرح کی موثر ویکسین سے کمی آئے گی، شاید 90 فیصد نہ ہو بلکہ 50 فیصد ہو، مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا کہ اس سے وبا کے پھیلاؤ میں ڈرامائی کمی آجائے گی'۔

پروفیسر اوغور شاہین نے بتایا کہ اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو توقع ہے کہ سال کے آخر یا 2021 کے شروع میں ویکسین کی تقسیم کا عمل شروع ہوجائے گا۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کے میڈیسین پروفیسر اور اس یونیورسٹی کی ویکسین کی تیاری میں شریک جان بیل نے بی بی سی کو گزشتہ ہفتے بتایا تھا کہ انہیں توقع ہے کہ اگلے سال موسم بہار تک معمولات زندگی وبا سے پہلے جیسے ہوجائیں گے۔

ان کے بقول 'میں شاید پہلا شخص ہوں جو یہ کہہ رہا ہے مگر میں ایسا اعتماد سے کہہ رہا ہوں'۔

مگر برطانیہ کی لیورپول یونیورسٹی کے ماہر جولیان ہسکوس نے اکتوبر میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا 'وبا سے پہلے کی زندگی 5 سال تک بحال نہیں ہوسکے گی'۔

ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی ویکسینز شاید مالی نہ ہوں اور ضروری نہیں کہ ان سے وائرس کے پھیلاؤ کی شرح اس حد تک کم ہوسکے، جو وبا کی روک تھام کرسکے، جس دوران فیس ماسک کا استعمال اور سماجی دوری جیسی احتیاطی تدابیر پر برسوں تک عمل کرنا پڑسکتا ہے۔

ویکسینز کی تیاری ہی نہیں ان کی دنیا بھر میں ترسیل کے لیے پیکیجنگ اور ٹرانسپورٹ بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔

برائٹن یونیورسٹی کی بائیو میڈیکل سائنس کی ماہر سارہ پٹ کے مطابق ابھی ویکسینز متعارف کرانے کے عمل میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں، جس کے بعد ان کی ترسیل کا عمل کئی ماہ تک جاری رہ سکتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں