جب 2016ء میں پہلی بار پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کا انعقاد ہوا تھا، تو پاکستان کے شائقین کی اکثریت یہی چاہتی تھی کہ فائنل میں کراچی اور لاہور کا مقابلہ ہوجائے۔ کیونکہ ان دونوں شہروں میں ہمیشہ مقابلہ رہتا ہے، ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا مقابلہ کہ جسے پی ایس ایل کی صورت میں ایک نیا میدان بھی مل گیا۔ لیکن دونوں کے فائنل کھیلنے کا خواب پورا ہونے میں 5 سال سے زیادہ کا عرصہ لگ گیا اور جب ایسا ہوا تو کراچی فاتح بن کر ابھرا۔

ابتدائی سیزنز میں تو کراچی کنگز اور لاہور قلندرز کی کارکردگی بہت ہی مایوس کُن تھی لیکن انہیں اپنے اصل جوہر دکھانے کا موقع تب ملا جب پہلی بار پورا سیزن پاکستان میں کھیلا گیا۔

پھر جب تمام نشیب و فراز عبور کرتی ہوئی، یہاں تک کے ایک عالمی وبا سے بھی نمٹتی ہوئی، پی ایس ایل 5 فائنل تک پہنچی، تو یہی روایتی حریف یعنی کراچی اور لاہور مدمقابل آئے۔

ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی فائنل میں وہ سنسنی خیز مقابلہ دیکھنے کو نہیں ملا کہ جو کوالیفائر اور ایلی منیٹرز میں نظر آتا ہے۔ آپ 2016ء میں اسلام آباد یونائیٹڈ کی کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے خلاف 6 وکٹوں کی کامیابی سے شروعات کریں اور پچھلے سال یعنی 2019ء میں کوئٹہ کے صرف 139 رنز کا ہدف حاصل کرنا دیکھیں، آپ کو پی ایس ایل فائنل ہمیشہ پھیکا ہی ملے گا۔

حالانکہ فائنل سے پہلے کوالیفائر اور ایلی منیٹرز میں ہیجان انگیز مقابلے ہوتے ہیں، اتنے کہ گویا کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے، تماشائی سانس لینا اور آنکھیں جھپکنا تک بھول جاتے ہیں لیکن فائنل میں تمام تر توقعات اور خدشات کے باوجود کچھ خاص نہیں ہوتا۔ پی ایس ایل سیزن 5 کے فائنل میں بھی ایسا کچھ نہیں ہوا کیونکہ اس مرتبہ پچ ذرا ’ماٹھی‘ تھی اور یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ پچ نے میچ کا مزا کرکرا کردیا۔

ایک طرف فائنل کا دباؤ، پھر مقابلہ بھی روایتی حریفوں کے درمیان کہ جن میں سے دونوں کے پرستاروں کا یہی کہنا تھا کہ ’ان سے مت ہارنا‘، اور اس میں ایسی وکٹ کہ جس نے دباؤ کو مزید بڑھا دیا کیونکہ اس پچ پر پہلے لاہور کھیلا، اس لیے اس پر زیادہ بوجھ پڑگیا۔

بہرحال، فائنل میں کراچی کنگز کی کامیابی کی بڑی وجہ بابر اعظم تھے۔ بہترین وقت پر بہترین فارم میں موجود بابر اعظم نے کوالیفائر میں بھی مشکل وقت پر 65 رنز کی اننگز کھیلی تھی اور فائنل میں بھی ناقابلِ شکست 63 رنز بنائے۔ یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ میچ میں فتح اور شکست میں اصل فرق بابر کی اننگز کا تھا۔

بابر اعظم نے وہ غلطیاں بھی نہیں دہرائیں، جو ملتان سلطانز کے خلاف کوالیفائر میں ہوئی تھیں۔ اس مرتبہ وہ آخر تک ڈٹے رہے اور مقابلے کو اختتام تک پہنچا کر ہی دم لیا۔ کوالیفائر میں ان کے آخری لمحے پر آؤٹ ہوجانے کی وجہ سے میچ سپر اوور میں چلا گیا تھا اور کراچی کو ایک سیدھی سادی نظر آنے والی کامیابی بعد میں بڑی مشکل سے ملی تھی۔

بہرحال، بابر اعظم نے پی ایس ایل سیزن 5 میں 12 میچوں میں سب سے زیادہ 59 کے اوسط کے ساتھ سب سے زیادہ 473 رنز بنائے اور سب سے زیادہ نصف سنچریاں بھی اسکور کیں۔ وہ فائنل کے بھی بہترین کھلاڑی قرار پائے اور ٹورنامنٹ کے بھی۔

لیکن بابر کی اننگز کے ساتھ ساتھ کراچی کی کامیابی کی کچھ اور وجوہات بھی تھیں۔ ایک تو باؤلرز کا پچ کے مطابق بہترین لائن پر باؤلنگ کرنا تھا۔ خاص طور پر پاور پلے کے خاتمے کے بعد جب لاہور اپنی اننگز کو اگلے گیئر میں ڈالنے کی کوشش کر رہا تھا، انہوں نے رنز کو روکا، جس سے لاہور پر دباؤ بڑھتا چلا گیا اور اسی دباؤ کا نتیجہ تھا کہ ایک وکٹ گرتے ہی اس کے کھلاڑی پے در پے آؤٹ ہوتے چلے گئے۔

محمد عامر اور عماد وسیم تو خیر تجربہ کار باؤلر ہیں لیکن میچ میں وقاص مسعود، ارشد اقبال اور عمید آصف نے جیسی باؤلنگ کی، جو لائن پکڑی، جیسی یارکرز پھینکیں، وہ دیکھنے سے تعلق رکھتی تھیں۔ لگ رہا تھا کہ وسیم اکرم کے تربیت یافتہ کھلاڑی میدان میں اترے ہیں۔

پھر کراچی کے فیلڈرز نے کوئی کیچ بھی نہیں چھوڑا بلکہ کچھ مشکل مواقع بھی ضائع نہیں ہونے دیے۔ حالانکہ دن کا سب سے کمال کیچ وہ تھا جو شرجیل خان کو آؤٹ کرنے کے لیے لاہور کے فخر زمان نے پکڑا تھا لیکن وہ فیصلہ کن ثابت نہیں ہوسکا۔

میچ کے دوران صاف محسوس ہو رہا تھا کہ کراچی پورے ہوم ورک کے ساتھ آیا ہے جبکہ اس کے برعکس لاہور کے پاس کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آئی، یا جو بھی انہوں نے پلان بنایا تھا وہ ابتدا ہی میں ناکام ہوتا نظر آیا اور ان کے ہاتھ پیر پھول گئے۔

حالانکہ قلندرز نے ٹاس بھی جیتا تھا، لگ رہا تھا کہ وہ ابتدا میں وکٹ روکنے کے منصوبے کے ساتھ آئے ہیں لیکن جب دیکھا کہ رن ریٹ بہت کم ہوگیا ہے، تو اسے بڑھانے کے لیے اُلٹے سیدھے شاٹ کھیلنا شروع کردیے اور آؤٹ ہوتے چلے گئے۔ کراچی کے باؤلرز کو اسی موقع کا تو انتظار تھا، انہوں نے بھی حریف بلے بازوں کو خوب آڑے ہاتھوں لیا۔

اس مرحلے پر جب 11 اوورز میں 70 رنز بن چکے تھے اور صرف 2 ہی وکٹیں گری تھیں، تب لاہور کو محمد حفیظ کی ویسی ہی اننگز کی ضرورت تھی جو بعد میں کراچی کے بابر اعظم نے کھیلی۔ لیکن جیسی توقع ان جیسے تجربہ کار کھلاڑی سے تھی، وہ اس کے بالکل برعکس انتہائی مایوس کن انداز میں آؤٹ ہوئے۔

آخر میں آتش بازی کے ایک شاندار مظاہرے کے ساتھ کراچی کنگز نے ٹرافی اٹھائی اور ساتھ ہی اپنے آنجہانی کوچ ڈین جونز کو بھی یاد کیا۔

رواں سال پی ایس ایل میں کراچی کے کوچ ڈین جونز تھے، جو اس سے پہلے 4 سال تک اسلام آباد یونائیٹڈ کے ساتھ تھے۔ جب کراچی کنگز نے پی ایس ایل 5 میں اپنی مہم کا آغاز کیا تو 'ڈینو' ان کے ساتھ تھے، لیکن پھر کورونا وائرس کی وجہ سے مقابلے مؤخر کردیے گئے۔ 24 ستمبر وہ دن تھا، جب دنیا کو اچانک خبر ملی کہ ڈین جونز اب اس دنیا میں نہیں رہے۔

جب پی ایس ایل کے بقیہ میچوں کے لیے سب دوبارہ جمع ہوئے تو پہلا کام ڈین جونز کو یاد کرنا تھا۔ کراچی کی کامیابی کے ساتھ 5 سیزنز میں یہ تیسرا موقع تھا، جس میں ڈین جونز کی ٹیم نے ٹرافی اٹھائی۔ 2016ء اور 2018ء میں اسلام آباد یونائیٹڈ 'پروفیسر ڈینو' کی کوچنگ میں ہی جیتا تھا۔ اب وہ تو ہم میں نہیں رہے، لیکن کراچی نے جیت کر انہیں زبردست خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔

2020ء ہر لحاظ سے ایک مشکل سال ہے اور پی ایس ایل نے بھی کئی مشکلات کا سامنا کیا لیکن بحیثیتِ مجموعی یہ بہت کامیاب سیزن رہا۔ سب سے بڑی کامیابی یہ رہی کہ سیزن کے تمام میچ پاکستان میں کھیلے گئے، وہ بھی ایک یا 2 نہیں بلکہ 4 مقامات پر کھیلے گئے اور پھر یہ بھی کہ نتائج پچھلے 4 سال کی روایات کے برعکس آئے۔

مضبوط ترین ٹیمیں اسلام آباد اور کوئٹہ پہلے ہی مرحلے میں باہر ہوگئیں، پشاور بھی ایلی منیٹر میں لڑکھڑا گیا اور باقی وہ ٹیمیں رہ گئیں جو ہمیشہ سب سے پیچھے رہتی تھیں، یعنی ملتان، کراچی اور لاہور، اور ان کے درمیان زبردست ٹاکرا دیکھنے کو ملا۔

سب سے اہم اور حیران کن بات یہ کہ کورونا وائرس کی وجہ سے 8 مہینے کا جو وقفہ آیا، وہ بھی کھیل کے معیار پر اثر انداز نہیں ہوسکا۔ کوالیفائر اور پہلا ایلی منیٹر تو سپر اوور تک گیا، تب جا کر میچ کا فیصلہ ہوا۔ فائنل میں ٹیموں پر بڑے میچ کا دباؤ بہت زیادہ نظر آیا لیکن جو اچھا کھیلتا ہے، وہ جیتتا ہے اور اس مقابلے میں کراچی نے بہت اچھا کھیل پیش کیا اور چیمپیئن بننے کا حقدار تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں