خاتون جج کا وکلا کی جانب سے ہراساں کیے جانے پر چیف جسٹس پاکستان کو خط

اپ ڈیٹ 18 نومبر 2020
چیف جسٹس کو فتح جنگ سے تعلق رکھنے والی خاتون جج نے خط لکھا—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
چیف جسٹس کو فتح جنگ سے تعلق رکھنے والی خاتون جج نے خط لکھا—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد: ضلع فتح جنگ سے تعلق رکھنے والی ایک جج نے چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد سمیت چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی توجہ ماتحت عدلیہ میں کام کی جگہ پر وکلا کے غیر مہذب اور بدتمیزی کے رویے سے جوڈیشل افسران کو ہراساں کیے جانے کی طرف مبذول کرانے کے لیے خط لکھ دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج فتح جنگ ڈاکٹر ساجدہ احمد چوہدری، جنہوں نے پی ایچ ڈی کیا ہے اور وہ 22 فروری سن 2000 سے بطور سول جج / جوڈیشل مجسٹریٹ خدمات انجام دے رہی ہیں، انہوں نے اپنے خط میں افسوس کا اظہار کیا کہ اگر انہیں معلوم ہوتا کہ وہ عدالت میں بطور خاتون جج نام نہاد وکلا کی جانب سے بدتمیزی اور غیرمہذب الفاظ کا سامنا کریں گی تو وہ اپنی زندگی کے 25 سال اعلیٰ تعلیم کے حصول پر ضائع نہیں کرتیں اور دیگر پاکستانی لڑکیوں کی طرح 20 سال کی عمر میں شادی کرلیتیں۔

انہوں نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’اپنی جوانی کے سنہری دور کے تقریباً 21 سال جوڈیشل سروس میں گزارنے کے بعد میں بہت زیادہ مایوس اور عدم اطمینان کا شکار ہوں‘۔

مزید پڑھیں: جج پر وکیل کا تشدد: عدالت نے تمام فریقین کو نوٹس جاری کردیئے

خاتون جج نے لکھا کہ اس طرح کی اچھی سی وی (کریکولم وا ٹائی) کے ساتھ وہ کسی بھی ملٹی نیشنل یا غیر ملک کا انتخاب کرسکتی ہیں لیکن انہوں نے عدلیہ کو چنا کیونکہ وہ ایک شہدا گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔

ڈاکٹر ساجدہ احمد وہی جج ہیں، جنہیں وکلا تحریک کے دوران اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے 26 مارچ 2007 کو راولپنڈی بار سے پہلے خطاب میں شرکت سے روکنے کے لیے اہل خانہ سے کئی سو کلو میٹر دور بھکر میں تعینات کیا گیا تھا۔

مذکورہ جج نے اس خط کی نقول وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم، صوبائی وزیر قانون، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عبدالطیف آفریدی، نائب چیئرمین اور صوبائی بار کونسلز اور ایسوسی ایشنز کے صدور اور اکرم شیخ، سید اصغر حسین شاہ، اعتزاز احسن، عابس حسن منٹو، سید قلب حسن، رشید اے رضوی، حامد خان، میاں رضا ربانی، سید افتخار حسین گیلانی اور حافظ عبدالرحمٰن انصاری سمیت سینئر وکلا کو بھی ارسال کی ہیں۔

خیال رہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ ایسے کسی معاملے میں چیف جسٹس پاکستان کی توجہ مبذول کروائی گئی ہو، اس سے قبل 22 مئی 2018 کو لاہور کے دسٹرکٹ کورٹس سے تعلق رکھنے والے کچھ ججز اسی طرح کی ایک شکایت اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے سامنے لائے تھے اور خبردار کیا تھا کہ وکلا کے بدتمیزی کے رویے کی حوصلہ شکنی نہ کی گئی تو پورا عدالتی نظام تباہ ہوسکتا ہے۔

اس وقت لاہور کے ڈسٹرک اینڈ سیشن ججز نے جان بوجھ کر اردو میں ایک صفحے کی درخواست کو گمنام رکھا تھا اور چیف جسٹس پاکستان سے درخواست کی تھی کہ جلد از جلد سول عدالتوں کا دورہ کریں اور وہاں کی وہ حالت زار دیکھیں جس میں ماتحت عدلیہ کے ججز انصاف فراہم کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر ساجدہ کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا کہ اگر عدالتی اوقات میں وکلا کی جانب سے ججز سے بدتمیزی، انہیں ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا اور اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے ان کے وقار اور عزت کا تحفظ نہیں کیا جاسکا تو ڈسٹرکٹ ججز اپنی اضافی سہولیات جیسے کاریں اور لیپ ٹاپ وغیرہ سرنڈر کرنے کو تیار ہیں۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ہماری عدالتوں میں جب مرد کے ساتھ ساتھ خاتون ججز کو ہراساں کیا جاتا تو مجھے مایوسی کا احساس ہوتا کہ آیا میں اپنی تمام تعلیمی اسناد ایک، ایک کرکے لاہور ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ کے سامنے جلا دوں تاکہ 23 کروڑ آبادی میں سے کوئی لڑکی آگے آنے اور عدلیہ میں شامل ہونے کی جرات نہ کرے۔

خط میں کہا گیا کہ اس معزز اور وقار رکھنے والے پیشے کی عزت، وقار اور تقدس کی کوئی قیمت نہیں ہے۔

ڈاکٹر ساجدہ نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ وکلا کے دفاتر لاہور ہائیکورٹ کی حاصل کردہ زمین کے ٹکڑے پر بنے ہوئے ہیں جبکہ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشنز کی جانب سے وکلا کی آڑ میں بغیر کسی بلز کی ادائیگی کے بجلی، گیس اور دیگر ضروریات کا غلط استعمال کیا جاتا رہا۔

یہ بھی پڑھیں: وکلا کی جانب سے لڑکی پر تشدد کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل

ان کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کو ہائیکورٹ کی جانب سے آئی ٹی سے مکمل لیس سینٹرز کے ساتھ ساتھ نئے ڈیسک ٹاپز بھی فراہم کیے گئے اور غریب ٹیکس دہندگان کی سخت محنت کی کمائی سے لاکھوں روپے کی گرانٹ سے بھی نوازا گیا، تاہم بدلے میں وکلا جب پریزائڈنگ افسران کے سامنے پیش ہوتے ہیں تو بے عزتی کرتے ہیں اور غریب سائلین اور اپنے ساتھیوں کی موجودگی میں ان کے ساتھ بدتمیزی کرتے اور ہاتھا پائی بھی کرتے ہیں۔

جج کی جانب سے اعلیٰ عدلیہ سے یہ استدعا کی گئی کہ اگر کالے کوٹ پہنے ایسے طاقت ور مافیا کے خلاف کارروائی نہیں کی جاسکتی تو کم از کم بار آفسز کو دی گئی سہولیات کو واپس لینا چاہیے۔

اپنے خط میں انہوں نے 8 اکتوبر کو پیش آئے اس واقعے کا بھی مختصر ذکر کیا جس میں انہیں لاہور بار ایسوسی ایشن کے نمائندگان کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں