سابق چیئرمین ایف بی آر سیاسی بیان بازی کی زد میں آگئے

اپ ڈیٹ 18 نومبر 2020
مولانا فضل الرحمٰن نے شبر زیدی کے بیان پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا تھا— فائل فوٹو: ڈان نیوز
مولانا فضل الرحمٰن نے شبر زیدی کے بیان پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا تھا— فائل فوٹو: ڈان نیوز

کراچی: پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے بینر تلے اپوزیشن کے جلسوں کے بعد سے سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی سیاسی بیان بازی کی زد میں آگئے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے شبر زیدی سے منسوب ایک پیغام کو اعتراف اور حکومت کے خلاف ایف آئی آر قرار دیے جانے کے بعد شبر زیدی نے پرائم ٹائم براڈ کاسٹ اوقات کے دوران کی گئی ٹوئٹس میں 'اسٹیٹس کو' کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

مزید پڑھیں: شبر زیدی کے دوبارہ چھٹیوں پر جانے سے ایف بی آر غیر یقینی صورتحال کا شکار

ایسا لگتا ہے کہ پی ڈی ایم رہنما نے جعلی فیس بک پوسٹ کا حوالہ دیا ہے جو بظاہر شبیر زیدی کی طرف سے کی گئیں اور اس میں کہا گیا تھا کہ انہیں وزیر اعظم نے خود شوگر مافیا کے خلاف کارروائی کرنے سے روکا تھا۔

شبر زیدی نے منگل کے روز شام 7 بجکر 41 منٹ پر ٹوئٹ کی تھی کہ مولانا فضل الرحمن اور پی ڈی ایم نے جو میڈیا کے سامنے کہا کہ وہ بالکل غلط تھا، عمران خان کے ساتھ کام کرنے کے بعد ان کے لیے میری عزت میں کئی گنا اضافہ ہوا، وہ ایک عظیم لیڈر اور اسٹیٹس کو جمود کے خلاف جنگجو ہیں، میں ان کا احترام اور سلام کرتا ہوں۔

چار منٹ بعد انہوں نے ایک اور جارحانہ انداز اپناتے ہوئے ٹوئٹ کیا کہ میں نے اپنے واٹس ایپ میں کہا تھا کہ 'ریاست کے زیر اہتمام بدعنوانی' جاری تھی، اس کا مطلب یہ تھا کہ عمران خان سے قبل کسی بھی حکومت میں یہ جرات نہیں تھی کہ وہ غیر اعلانیہ خوردہ شعبہ، مڈل مین اور بہت سارے افراد پر ہاتھ ڈال سکے، کتنا زرعی انکم ٹیکس ادا کیا جاتا ہے، کیا یہ ان کی دولت سے مماثلت رکھتا ہے؟

یہ حوالہ ان کے لکھے ہوئے ایک طویل پیغام کا تھا جو واٹس ایپ پر کئی دنوں سے زیر گردش ہے جس میں انہوں نے ملک میں بامعنی پالیسی مباحثے کی عدم موجودگی پر افسوس کا اظہار کیا۔

یہ بھی پڑھیں: شبر زیدی فارغ، نوشین جاوید ایف بی آر کی نئی سربراہ تعینات

گزشتہ جمعرات کو انہوں نے تسلیم کیا تھا کہ یہ طویل پیغام ان کا ہی ہے اور بتایا تھا کہ اسے سب سے 'کارپوریٹ پاکستان' نامی پہلے واٹس ایپ گروپ میں شروع کیا گیا تھا، پھر اتوار کے روز انہوں نے کہا کہ 'جو دستاویز زیر گردش ہے' وہ انہوں نے واٹس ایپ گروپ ’کارپوریٹ پاکستان‘ اور 'سی 100' میں پیغام کے طور پر فراہم کی تھی، میں نے دونوں گروپس کو چھوڑ دیا ہے، اس میں جو کہا وہ میرے احساسات تھے۔

بعد ازاں کل رات ہی کو مولانا کے تبصرے کے جواب میں دو ٹوئیٹس کے ایک گھنٹے سے بھی کم وقت کے بعد وہ تیسری ٹوئٹ کے ساتھ سوشل میڈیا پر واپس آئے جس میں انہوں نے ایک قدم آگے جاتے ہوئے پی ڈی ایم رہنما مریم نواز کو نشانہ بناتے ہوئے پاناما پیپرز کیس میں ان کی شمولیت کا اعتراف کیا جو اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی کا باعث بنا تھا اور ساتھ ساتھ ٹوئٹ میں عمران خان سے دیرینہ قربت کا اظہار بھی کیا۔

انہوں نے 8 بجکر 36 منٹ پر کی گئی ٹوئٹ میں کہا کہ میری سابقہ ​​فرم اے ایف ایف فرگوسن اینڈ دو دہائیوں سے عمران خان کے ٹیکس گوشواروں سے نمٹ رہی ہے، پاناما کیس کی سماعت کے دوران میں نے ان کی مدد کی، میں نے اس معاملے پر بھی دلیرانہ رائے دی کہ مریم نواز کا ٹیکس کے لیے نواز شریف پر انحصار نہیں ہے، انہوں نے 8:36 بجے کہا کہ عمران خان کو میری حمایت میں اب 100 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن اور شبر زیدی کے ٹوئٹس نے پرائم ٹائم کے دوران عجیب و غریب ٹیلیویژن کوریج کو جنم دیا اور ملک بھر میں واٹس ایپ گروپس پر پیغامات کی بھرمار ہونے لگی۔

مزید پڑھیں: شبر زیدی کی بطور ایف بی آر چیئرمین تعیناتی چیلنج

شبر زیدی کے ٹوئٹس پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمعٰیل نے سابق ایف بی آر چیئرمین کی ابتر کارکردگی کی جانب اشارہ کیا۔

انہوں نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ شبر صاحب نے غیر معقول آمدنی کے 5 ہزار 555 ارب روپے کے ہدف پر اتفاق کیا لیکن آخر کار ان کی کارکردگی ابتر رہی جس میں 4 ہزار ارب روپے سے بھی کم وصول ہوا۔

انہوں نے کہا کہ شبر زیدی کا کہنا ہے کہ سابقہ ​​حکومتوں کے پاس معیشت کے مختلف غیر دستاویزی شعبوں سے نمٹنے کی ’ہمت‘ نہیں تھی اور صرف عمران خان نے ہی کیا، لیکن 'اگر ایسا ہی ہے تو پھر ہم ٹیکسوں میں اضافہ کیوں نہیں دیکھتے؟ عام طور پر ٹیکس یا بالواسطہ براہ راست ٹیکسوں میں اضافہ کیوں نہیں کیا جاتا ہے؟'

ان کا کہنا تھا کہ شبر صاحب ہم سب کو براہ راست ٹیکسوں پر انحصار نہ کرنے، زیادہ ٹیکس جمع نہ کرنے وغیرہ کی تلقین کرتے تھے لیکن پھر بھی حیرت انگیز طور پر وہ خود اس میں ناکام رہے اور اس کے بجائے پورے معاشرے کو مورد الزام ٹھہرانے اور ہر ایک کو ٹیکس چور قرار دینے کے بجائے انہیں باطنی مشاہدے کی ضرورت ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں