اپوزیشن کا کورونا پر پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کے بائیکاٹ کا امکان

اپ ڈیٹ 23 نومبر 2020
اپوزیشن نے اسپیکر کی زیرصدارت اجلاس کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا تھا—فوٹو: اے ایف پی
اپوزیشن نے اسپیکر کی زیرصدارت اجلاس کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا تھا—فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: اپوزیشن جماعتوں کی جانب 25 نومبر کو کورونا وائرس کی بیماری پر قائم پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کے بائیکاٹ کا امکان ہے۔

اس اجلاس کے بائیکاٹ کا امکان اپوزیشن کے گزشتہ فیصلے کے تناظر میں ہے جس میں انہوں نے مبینہ طور پر جانبداری کے باعث قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کی سربراہی میں تمام اجلاسوں سے دور رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جب مسلم لیگ (ن) کی جانب سے دوٹوک اعلان کیا گیا کہ وہ اجلاس میں شرکت نہیں کرے گی تو وہیں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کا کہنا تھا کہ اگرچہ انہوں نے بھی اسپیکر کی زیر صدارت اجلاسوں سے دور رہنے کا فیصلہ کیا ہے تاہم 25 نومبر کے اجلاس میں شرکت سے متعلق حتمی فیصلہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی دیگر اتحادی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔

اس حوالے سے جب رابطہ کیا گیا تو مسلم لیگ (ن) کی سیکریٹری اطلاعات مریم اورنگزیب نے واضح طور پر کہا کہ ’ہم نے اسپیکر کی جانب سے بلائے گئے (25 نومبر کے) اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘۔

مزید پڑھیں: پی ڈی ایم کا پارلیمنٹ میں اپنی انتخابی اصلاحات پیش کیے جانے کا امکان

واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن)، سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف کی والدہ کے انتقال کی وجہ سے پہلے ہی تمام سرگرمیاں معطل کرنے کا اعلان کرچکی ہے۔

ادھر قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے پارلیمانی کمیٹی کے 25 نومبر کے اجلاس کے لیے ایک ایجنڈا جاری کیا گیا جس میں ’کووڈ 19 کے باعث قومی اسمبلی کے اجلاس سے متعلق معاملات اور کورونا وائرس کی بیماری پر بریفنگ‘ شامل ہے۔

قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے سینئر حکام کو اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ 6 ہفتوں کے دوران یہ تیسری مرتبہ ہے جب اپوزیشن کی جانب سے اسپیکر کے تحت ہونے والے اجلاس کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔

اس سے قبل اسپیکر کی جانب سے 11 نومبر کو ’عسکری حکام کی جانب سے قومی سلامتی کے حالیہ معاملات پر ایک بریفنگ‘ کے لیے بلایا جانے والا پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس اس وقت منسوخ کردیا تھا جب اپوزیشن جماعتوں نے اس سے دور رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔

حکومت میں موجود ذرائع کا کہنا تھا اس بریفنگ کا اصل مقصد گلگت بلتستان کو ’عارضی صوبائی حیثیت‘ دینے پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کرنا تھا۔

اگرچہ اس حوالے سے حکومتی یا انٹر سروسز پبلک ریلیشن (آئی ایس پی آر) کی جانب سے کوئی باضابطہ تصدیق نہیں کی گئی تھی تاہم ذرائع کا کہنا تھا کہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو بریفنگ دینا تھی۔

اسی طرح اسپیکر کی جانب سے 28 ستمبر کو ہونے والے پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس کو بھی منسوخ کیا گیا تھا، یہ اجلاس گلگت بلتستان میں انتخابات سے متعلق بلایا گیا تھا۔

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ ان کی جماعت اسپیکر کی جانب سے 16 ستمبر کو پارلیمنٹ کے آخری مشترکہ اجلاس کے دوران کی جانے والی جانبداری پر کسی پارلیمانی کمیٹی کا حصہ نہیں بنے گی۔

دوسری جانب اسپیکر کے ترجمان نے اپوزیشن کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اسے ’حقیقت میں غلط‘ قرار دیا تھا۔

ڈان سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ اسپیکر کا کہنا تھا کہ انہوں نے ہمیشہ ایوان کے فلور پر بولنے کے لیے اپوزیشن اراکین کو موقع اور آزادی دی، جو اس حقیقت سے ظاہر ہے کہ بجٹ بحث کے دوران انہیں مختص وقت سے زیادہ وقت دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: اسپیکر کا اپوزیشن سے رابطہ، کورونا وائرس سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل پر اتفاق

خیال رہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے اپنی 20 ستمبر کی آل پارٹیز کانفرنس کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ میں کہا تھا کہ وہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر حکومت کے ساتھ تعاون نہیں کریں گے۔

25 نومبر کو ہونے والا اجلاس کمیٹی کا 5 واں اجلاس ہوگا جو قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کی سربراہی میں ہوگا اور اس میں اہم سیاسی شخصیات شامل ہوں گی۔

کمیٹی کے اہم اراکین میں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر اطلاعات شبلی فراز، وزیر ہاؤسنگ چوہدری طارق بشیر چیمہ، وزیر ریلوے شیخ رشید احمد، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی رہنما خواجہ آصف اور مشاہد اللہ خان شامل ہیں۔

اسی طرح پیپلزپارٹی کے راجا پرویز اشرف اور شیری رحمٰن، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے اسد محمود اور مولانا عبدالغفور حیدری، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے عثمان کاکڑ، امیر جماعت اسلامی سراج الحق، متحدہ قومی موومنٹ کے خالد مقبول صدیقی، بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل اور عوامی نیشنل پارٹی کے امیر حیدر ہوتی شامل ہیں۔

ان اراکین کے علاوہ وزیر دفاع پرویز خٹک، وزیر ترقی و منصوبہ بندی اسد عمر، مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ، مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان اور وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کمیٹی کے سابق اراکین ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں