رات کے 12 بج رہے ہیں اور اب آپ کو سونے کی تیاری کرنا ہے، مگر اس کی گہ آپ ہاتھ میں فون اٹھا لیتے ہیں اور سوشل میڈیا پر اسکرولنگ شروع کردیتے ہیں۔

دن میں چہل قدمی کے لیے باہر نکلتے ہیں، مگر اس دوران ارگرد کے ماحول پر دھیان دینے کی بجائے مسلسل اپنے فون میں مصروف رہتے ہیں۔

آسان الفاظ میں آپ کے لیے اپنی آنکھیں فون سے اٹھانا ناممکن ہوتا ہے۔

اگر ایسا ہے تو آپ تنہا نہیں، ایسا کروڑوں افراد کرتے ہیں، مگر اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے، اسکا آپ کو علم ہے؟

جی ہاں فونز اب ہماری روزمرہ کی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں، مگر ان سے مسلسل ملنے والی معلومات ہماری ذہنی صحت پر کس طرح اثرانداز ہوتی ہیں؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیکسٹ الرٹس اور مسلسل سوشل میڈیا پر مصروف رہنے کی قیمت ذہنی اور جذباتی طور پر ادا کرنا پڑتی ہے۔

درحقیقت یہ زیادہ اچھا ہوگا کہ اپنے روزمرہ کے معمولات میں فون کے دورانیے میں کمی لانے کی کوشش کریں۔

ہمارے فونز تناؤ کیسے بڑھاتے ہیں؟

نیویارک یونیورسٹی گروسمین اسکول آف میڈیسین کے شعبہ اطفال و نوجوانوں کی کلینکل اسسٹنٹ پروفیسر یامالیس ڈیاز کے مطابق 2020 میں ہر عمر کے افراد میں ذہنی تناؤ کے غیرمعمولی امتزاج کو دیکھا گیا ہے۔

ان کے بقول کووڈ 9 کی وبا اب روزمرہ کی زندگی کو متاچر کررہی ہے جس کے ساتھ دیگر عناصر کے باعث تناؤ میں اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ متعدد طریقوں سے فونز اور دیگر ڈیوائسز اس تناؤ میں اضافے کی وجہ بن رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ تناؤ کا باعث بننے والے ہارمونز جیسے کورٹیسول ارگرد کی صورتحال میں خطرہ محسوس کرکے متحرک ہوجاتے ہیں، تاکہ ہمیں خطرے کے ردعمل کے لیے تیار کرسکیں، مگر پرتناؤ معلومات کے نتیجے میں یہ نظام زیادہ متحرک ہوتا ہے اور زیادہ وقت تک متحرک رہتا ہے۔

ماہر نفسیات ماریہ مورواٹیڈز نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا اور ان کا کہنا تھا کہ خبروں کی مسلسل بھرمار کے نتیجے میں تناؤ اور ذہنی بے چینی میں اضافہ ہوتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ڈیجیٹل ڈیوائسز حقیقی معنوں میں ہمارے ذہنوں کو ہر وقت چوکنا رککھتی ہیں جس کے نتیجے میں وقت کے ساتھ ذہنی صلاحیتیں تنزلی کا شکار ہونے لگتی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ سوشل میڈیا ذہنی بے چینی میں منفرد انداز میں اضافہ کرتا ہے کیونکہ وہ ہمیں اپنا موازنہ دیگر سے کرنے پر مجبور کرتا ہے، جس کے نتیجے میں ڈپریشن کا احساس بڑھتا ہے۔

انہوں نے وضاحت کی کہ مسلسل سوشل میڈیا اور نیوز اپٖڈیٹس کے نتیجے میں ہمارے اندر ایک دباؤ کا احساس پیدا ہوتا ہے کہ کچھ پرجوش یا دلچسپ کیا جائے، تاکہ زیادہ سے زیادہ لائیکس مل سکیں, وقت کے ساتھ مسلسل ایسا کرنے سے ہماری دماغ اس کا عادی ہوجاتا ہے۔

اس کے نتیجے میں ہمارے لیے پرسکون رہنا بہت مشکل ہوجاتا ہے، جیسے رات کے کھانے کے وقت فون قریب ہو تو ہمارے اندر بے چینی رہتی ہے کہ نئے الرٹس میں ہمیں کیا بےایا جارہا ہے، جب ہم سونے لیٹتے ہیں تو دماغ کے لیے پرسکون ہونا مشکل ہوتا ہے کیونکہ ہم ٹوئٹرپر حالات حاضرہ کی خبریں دیکھ رہے ہوتے ہیں۔

اس سے نیند کا معمول متاثر ہوتا ہے جبکہ ڈپریشن اور ذہنی بے چینی کی سطح بڑھتی ہے، جس کے اثر سے روزمرہ کے افعال بھی متاثر ہوتے ہیں۔

اس تناؤ اور بے چینی کو کیسے کنٹرول کریں؟

ماہرین کے مطابق ٹیکنالوجی ایک ٹول ہے، یہ ہمارے اوپر ہوتا ہے کہ ٹیکنالوجی کے ساتھ کس طرح کا رشتہ قام کرتے ہیں، فونز اور الرٹس متحرک کرنے والے ہوتے ہیں، یہ آپ پر ہے کہ کیا انتخاب کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایسے شواہد مسلسل سامنے آرہے ہیں جن سے عندیہ ملتا ہے کہ ویڈیو کانفرنسنگ پلیٹ فارمز جیسے زوم سے مختلف وجوہات کے باعثث دماغی تھکاوٹ بڑھتی ہے۔

تو اس کا مقابلہ کیسے کریں؟

سب سے پہلے تو ٹیکنالوجی کے مجموعی استعمال میں کمی لانی چاہیے، ہمارے دن بھر کی مصروفیات میں ہر ٹاسک کے لیے فون کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔

کسی کتاب کو پڑھنا یا سوشل میڈیا یا ویب سائٹس پر اسکرولنگ کی بجائے فون پر اپنے کسی دوست یا پیارے کو کال کرلیں۔

ماہرین نے یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ سوشل میڈیا اور ای میل اکاؤنٹس کے نوٹیفکیشنز ٹرن آف کردینے چاہیے۔

اگر آپ یہ پلیٹ فارمز استعمال کرتے ہیں تو کوشش کریں کہ آن لائن لوگوں سے بحث سے گریز کریں۔

یہ بھی اچھا خیال ہے کہ ای میل یا فیس بک کو فون پر استعمال کرنے کے وقت کا تعین کرلیں، خاص طور پر سونے سے ایک گھنٹے قبل فون اور ٹیکنالوجی سے گریز کرنا چاہیے۔

انہوں نے یہ بھی مشورہ دیا ہے کہ سوشل میڈیا فیڈز کو کلین اپ کریں اور ایسے پیجز اور افراد کو فالو کریں جو زیادہ پرمسرت ایونٹس اور اپ ڈیٹس فراہم کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ بھی اہمیت رکھتا ہے کہ فون پر کونسی چیزیں تناؤ کی سطح پر متاثر ہوتی ہیں، یہ جاننا کہ کس قسم کی تفصیلات یا اعلانات تناؤ کو بڑھاتے ہیں تاکہ مستقبل میں ان سے بچ سکیں۔

اگر آپ فون کے استعمال کے دوران کسی وجہ سے پریشان یا مشتعل ہوتے ہیں تو بہتر ہے کہ اسے ایک طرف رکھ کر کچھ دیر چہل قدمی کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں