رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔
رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔

کچھ مہینے پہلے میں نے برطانوی اخبار گارجین میں 30 سالہ پاکستانی حسن کے حوالے سے ایک خبر پڑھی۔ حسن ان 99 پاکستانیوں میں سے ایک ہے جو کورونا وبا کے بعد سے دبئی کے مضافات میں قائم ایک تقریباً خالی لیبر کیمپ میں پھنسا ہوا ہے۔

ان لوگوں کے پاس وطن واپس آنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ ان کے پاس کھانے پینے تک کے لیے پیسے نہیں بچے تھے جس کی وجہ سے انہیں بھیک مانگنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اس وقت وہ فلاحی اداروں کے رحم و کرم پر ہیں، جو لیبر کیمپ میں محصور ان مظلوموں کی مدد کررہے ہیں۔ وہ جس تعمیراتی کمپنی کے لیے کام کر رہے تھے اس نے بھی ان سے تمام تعلقات قطع کرلیے ہیں، یعنی اب ان کے بقایاجات ملنے کی امید بھی بہت کم ہے۔

میں نے حسن کی کہانی اس وقت پڑھی تھی جب یہ پہلی مرتبہ شائع ہوئی تھی۔ مجھے حیرت اس بات پر ہوئی کہ اتنا وقت گزرنے کے بعد بھی وہ اب تک وہیں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان کا پاکستان واپس آنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس کی وجہ صرف کورونا کی وبا نہیں ہے بلکہ وہ ایجنٹ بھی ہیں جو انہیں پاکستان سے امارات لائے تھے۔

مزید پڑھیے: سفری پابندیاں عارضی نہیں، دنیا کو مستقبل میں کونسے بڑے خطرے لاحق ہیں؟

گزشتہ ہفتے ویزوں کے حوالے سے جو تحریر میں نے لکھی، اس کے ردِعمل میں لوگوں کو درپیش نئی مشکلات میرے سامنے آئیں۔ ان مشکلات میں نوکری کا یہ استحصالی نظام بھی شامل تھا جو موجودہ حالات میں مزید کھل کر سامنے آیا ہے۔ مجھے جو ردِعمل ملے ان میں سے ایک خیبر پختونخوا کے علاقے دیر بالا سے تعلق رکھنے والے نوجوان کا تھا۔

یہ نوجوان زرعی یونیورسٹی پشاور کا گریجویٹ تھا اور کوشش کے باوجود اسے پاکستان میں نوکری نہیں ملی۔ بلآخر دیگر لوگوں کی طرح اس نے بھی تھک ہار کر دبئی چلے جانے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت اس کی ملاقات علی نامی شخص سے ہوئی۔ علی کا کام ملک بھر سے نوجوانوں کو جمع کرکے انہیں دبئی کا ویزا دلوانا تھا۔ وہ نوجوانوں سے وعدہ کرتا تھا کہ انہیں وہاں اچھی نوکریاں دلوائی جائیں گیں۔ اس نوجوان کو دبئی بھیجنے کے لیے اخراجات پورے کرنے کی خاطر گھر کی خواتین کو اپنا زیور تک بیچنا پڑا۔

جب وہ دبئی پہنچا تو علی اور کچھ دوسرے ایجنٹ اس سے ایئرپورٹ پر ملے۔ انہوں نے اس نوجوان اور اس کے ساتھ آئے دیگر لوگوں کو کچھ عرصے کے لیے رہائش بھی فراہم کی۔ اس کے بعد انہیں ایک کمپنی میں لے جایا گیا جسے علی اور اس کے ساتھی چلاتے تھے۔ اس کے فوراً بعد ہی انہیں ایک لیبر کیمپ میں کام کرنے کے لیے بھیج دیا گیا۔

اگرچہ اسے ایک گریجویٹ کے لحاظ سے اچھی نوکری کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن اب وہ ایک لیبر کیمپ میں ساتوں دن روز 12 گھنٹے مزدوری کر رہا تھا۔ اس کا ویزا اور دیگر دستاویزات اسی کمپنی کے پاس ہیں۔ اسے ابھی تنخواہ بھی ادا نہیں کی گی ہے اور اس کے پاس واپس جانے کے بھی پیسے نہیں ہیں۔ اس کے لیے واپسی کا راستہ آسان نہیں ہے کیونکہ وہ اپنے گھر والوں کی قربانیوں کو ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ جب اس نے مجھے خط لکھا تو اس میں یہ بھی تحریر تھا کہ وہ اپنی زندگی سے تنگ آچکا ہے اور خودکشی کے بارے میں سوچ رہا ہے۔

بات صرف مزدوروں تک محدود نہیں ہے۔ نوجوان ڈاکٹر جو متحدہ عرب امارات منتقل ہونے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے وہ درخواست جمع کروانے اور وہاں پہنچنے کے محدود وقت کی وجہ سے پریشانی کا شکار ہیں۔

ان میں سے اکثر اس امید میں تھے کہ انہیں مارچ کے مہینے میں لائسنس مل جائے گا۔ جنہیں پہلے سے ہی نوکریوں پر رکھ لیا گیا تھا وہ اپنی موجودہ نوکریاں چھوڑ چکے تھے۔ جو لوگ لائسنس کے انتظار میں تھے وہ لائسنس کا امتحان پاس کرچکے تھے، اس کی فیس بھی ادا کرچکے تھے اور جہاز کے ٹکٹ بھی خرید چکے تھے۔ ان کاموں میں ان کا اچھا خاصا سرمایہ لگ چکا تھا لیکن پھر کورونا آگیا اور سارا نظام درہم برہم ہوگیا۔

مزید پڑھیے: دبئی، جہاں زندگی اب بھی کرائے پر ملتی ہے

وہ تمام لوگ جنہوں نے لائسنس کے لیے درخواست دی ہوئی تھی ان کو کوئی جواب نہ ملا اور جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ان کی درخواستیں بھی مدت گزرنے کی وجہ سے منسوخ ہوگئیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں اب نئے سرے سے درخواست دینی پڑے گی اور امتحان پاس کرنا پڑے گا۔

ستمبر میں پابندیوں میں نرمی آنے کے بعد کچھ لوگوں نے دوبارہ درخواستیں دی تھیں لیکن اب امارات کی جانب سے پاکستان پر ویزا پابندیاں عائد ہونے کے بعد معاملات دوبارہ غیر یقینی کی صورت اختیار کرگئے ہیں۔

وہ پاکستانی جو دبئی میں مقیم ہیں یا وہاں جانے والے تھے، اس وقت شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ ان کی کہانیاں ان تمام لوگوں کے لیے ایک سبق ہیں جو مستقبل میں دبئی جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ کورونا کی اس وبا نے ایک بار پھر لیبر سپلائی کمپنیوں کی جانب سے کیے جانے والے استحصال کو واضح کردیا ہے۔

لائسنس فراہم کرنے والی وہ ایجنسیاں جنہوں نے پہلے سے فیس ادا کرنے والوں کو کوئی خاص مراعات نہیں دی، دراصل اس غیر انسانی ذہنیت کی عکاس ہیں جو اپنے نظامِ صحت چلانے والوں کی عزت و وقار کا کوئی خیال نہیں رکھتے۔

یہ ایک ایسے خطے کی کہانی ہے جو کبھی بہت ہی دولت مند اور منافع بخش ملک تھا، لیکن اب دنیا کے سابق آمروں، سیاستدانوں اور شاہی خاندان کے لیے ایک کھیل کا میدان بن کر رہ گیا ہے۔

مزید پڑھیے: کورونا کے دوران دبئی میں گزرنے والے دن اور رات!

تیل کی منڈی میں ہونے والے نقصان اور کورونا کی وبا نے دبئی کو ایک ایسے شہر کے طور پیش کیا ہے جو اب تباہ ہورہا ہے۔ یہاں ان افراد کو بھی شہریت نہیں دی جاتی جو دہائیوں تک یہاں کام کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وبا کے دوران ایسے ہزاروں لوگ یہاں سے چلے گئے تھے۔

کئی لوگ وہاں موجود غیر ملکیوں کو سماجی خدمات کی عدم فراہمی کی شکایت کرتے ہیں۔ یہ مسئلہ وبا کے دوران مزید نمایاں ہوا۔ دبئی میں صرف وہی لوگ رہ جائیں گے جو بہت زیادہ مجبور ہوں گے، اور پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد ایسے ہی طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔

اگر ہمارے لیے ان افراد کی زندگیاں کوئی معنی رکھتی ہیں تو پاکستان کو فوری مداخلت کرکے ان مرد و خواتین کی مدد کرنی چاہیے، جو اماراتی بیوروکریسی کی جانب سے استحصال کا شکار ہیں۔


یہ مضمون 2 دسمبر 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (2) بند ہیں

Ijaz Dec 10, 2020 04:27pm
Aap ny Pakistaniyon ki surte hal ka bilkul drust tajziya kiya hyy.
Polaris Dec 10, 2020 08:27pm
Only tip of the iceberg.